بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ترک قوم کا تذکرہ کسی حدیث میں ہے؟


سوال

کیا ترک قوم کا ذکر احادیث میں ملتا ہے؟

جواب

جی  ہاں! حدیث شریف میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حبشہ اور ترک قوم سے اس وقت تک تعرض نہ کرنا جب تک وہ تم سے تعرض نہ کریں، یعنی ان سے اقدامی جہاد کرنے کی رخصت دی گئی۔

ترک قوم کے متعلق بعض نے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام کی ایک باندی کی اولاد سے ہیں اور بعض نے لکھا ہے کہ یہ قوم حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث کی اولاد ہے، بہرحال!  محدثین نے لکھا ہے کہ ترک قوم سے تعرض نہ کرنے کی من جملہ وجوہات کے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عرب کا موسم گرم ہے اور ترک کا موسم ٹھنڈا ہے تو موسم کے اختلاف کی وجہ سے مشکلات ہو سکتی ہیں؛ لہذا یہ رخصت عنایت فرمائی گئی تھی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترک قوم سے تعرض نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بیان فرمائی کہ یہ قوم بہت سخت قوم ہے۔

امام نووی فرماتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ آپ کو ان کے بارے میں یہ معلومات حاصل ہو گئیں اور بعد کے ادوار میں جب مسلمانوں نے ان سے جنگ کی تو ان کو ایسا ہی پایا۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (8/ 3420):
"وعن رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قال: " «دعوا الحبشة ما ودعوكم، واتركوا الترك ما تركوكم» ". رواه أبو داود، والنسائي.

وأما تخصيص الحبشة والترك بالترك والودع ; فلأن بلاد الحبشة وغيره بين المسلمين وبينهم مهامه وقفار، فلم يكلف المسلمين دخول ديارهم ; لكثرة التعب وعظمة المشقة، وأما الترك فبأسهم شديد وبلادهم باردة، والعرب وهم جند الإسلام كانوا من البلاد الحارة، فلم يكلفهم دخول البلاد، فلهذين السرين خصصهم، وأما إذا دخلوا بلاد المسلمين قهرا - والعياذ بالله - فلا يجوز لأحد ترك القتال ; لأن الجهاد في هذه الحالة فرض عين، وفي الحالة الأولى فرض كفاية. قلت: وقد أشار - صلى الله تعالى عليه وسلم - إلى هذا المعنى ; حيث قال: " ما تركوكم "، وحاصل الكلام أن الأمر في الحديث للرخصة والإباحة لا للوجوب ابتداء أيضا، فإن المسلمين قد حاربوا الترك والحبشة بادين، وإلى الآن لا يخلو زمان عن ذلك، وقد أعز الله الإسلام وأهله فيما هنالك. (رواه أبو داود، والنسائي) ، وروى الطبراني، عن ابن مسعود مرفوعا، ولفظه: " «اتركوا الترك ما تركوكم ; فإن أول من يسلب أمتي ملكهم وما خولهم الله بنو قنطوراء» "، ففي النهاية هي جارية إبراهيم الخليل، ولدت له أولادا منهم الترك والصين اهـ".

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (8/ 3422):
"وبنو قنطوراء اسم أبي الترك، وقيل: اسم جارية كانت للخليل عليه الصلاة والسلام ولدت له أولادًا جاء من نسلهم الترك، وفيه نظر؛ فإن الترك من أولاد يافث بن نوح، وهو قبل الخليل بكثير، كذا ذكره بعضهم، ويمكن دفعه بأن الجارية كانت من أولاد يافث، أو المراد بالجارية بنت منسوبة للخليل؛ لكونها من بنات أولاده، وقد تزوجها واحد من أولاد يافث فأتت بأبي هذا الجيل، فيرتفع الإشكال بهذا القال والقيل، ويصح انتسابهم إلى يافث والخليل".

الإشاعة لأشراط الساعة (ص: 83):
"وورد: "اتركوا التُّرك ما تركوكم؛ فإنَّ أوّل من يَسلُبُ أمتي مُلْكَهم بنو قنطوراء. . . ." الحديث.
زاد في رواية: "فإنهم أصحاب بأسٍ شديد، وغنائمهم قليلة". قال النووي: هذه الأحاديث كلها معجزة لرسول الله صلى الله عليه وسلم؛ فقد عُرِفَ هؤلاء الترك بجميع صفاتهم التي ذكرها النبي صلى الله عليه وسلم، وقاتلهم المسلمون مرات". 
فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر جامعہ کا سابقہ فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

احادیث میں ترکی کا ذکر


فتوی نمبر : 144010200551

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں