بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ایصالِ ثواب جائز ہے؟


سوال

ایصالِ ثواب کی کیا حقیقت ہے؟  بعض حضرات کہتے ہیں  کہ سعودیہ عرب  کے  علماء کہتے ہیں کہ  ایصالِ  ثواب کی کوئی حقیقت نہیں۔ یعنی قرآنِ پاک پڑھ کر مرحوم کے نام بخشوانا اور کوئی بھی نیک اعمال کر کے اس کے ثواب کو مرحوم کے حق میں بھیجنا وغیرہ۔  البتہ صرف مرحوم کے حق میں دعا کی جاسکتی ہے۔ مہربانی فرما کر اس مسئلہ کو مدلل ومفصل بتلائیں۔

جواب

واضح رہے کہ قرآنِ کریم کی تلاوت، ذکر و اذکار نفل نماز، روزہ، طواف، عمرہ و حج، قربانی، نیز غرباء ومساکین پر صدقہ خیرات کرکے مرحومین کو جو ثواب پہنچایا جاتاہے، یہ شرعاً درست ہے،  اور  مرحومین تک نہ صرف  اس کا  ثواب پہنچتاہے،  بلکہ  پڑھنے والوں یا صدقہ کرنے والوں کو بھی برابر ثواب ملتا ہے، اور کسی کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ہے، اور یہی اہل سنت و الجماعت  کا مسلک ہے، علماءِ عرب بھی اسی کے قائل ہیں، اور ایصالِ ثواب کا ثبوت و تعلیمات خود احادیث میں وارد ہوئی ہیں،  پس مسئولہ صورت میں ایصالِ ثواب کا انکار کرنا یا اسے بدعت قرار دینا درست نہیں، البتہ ایصالِ ثواب کے لیے شریعتِ مطہرہ نے کوئی دن یا وقت یا خاص طریقہ متعین نہیں کیا ہے، لہذا اس کے  لیے سال بھر میں ایک دن برسی یا عرس کے نام سے متعین کرنا، یا موت کے تیسرے دن یا دسویں دن یا گیاریں دن یا چالیسویں دن خاص اہتمام کرنا بدعت اور واجب الترک ہے،  نیز میت کے ایصالِ ثواب میں فرض نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں،  البتہ نوافل اپنی نیت سے ادا کرنے کے بعد اس کا ثواب مرحومین کو بخشا جا سکتا ہے۔

شعب الإيمان للبيهقي  میں ہے:

"عن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله ﷺ من حج عن والدیه بعد وفاتهما کتب له عتقاً من النار، وکان للمحجوج عنهما أجر حجة تامة من غیر أن ینقص من أجور هما شیئاً". ( شعب الإیمان ، ٦/ ٢٠٤، رقم: ٧٩١٢، ط: دارالکتب العلمیة، بیروت)

یعنی  حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ:  جو شخص اپنے والدین کی وفات کے بعد ان کی طرف سے حج کرتا ہے، تو اس کے لیے جہنم سے خلاصی لکھ دی جاتی ہے،  اور جن دونوں (والدین) کی طرف سے حج کیا گیا ہے انہیں کامل حج کا ثواب ملتاہے، نہ حج کرنے والے کی اجر میں کوئی کمی کی جاتی ہے اور نہ ہی جن کی طرف سے حج کیا گیا ہے ان کے اجر میں کوئی کمی کی جاتی ہے۔

وفيه أيضاً:

"عن عمرو بن شعیب عن أبیه عن جده قال: قال رسول الله ﷺ لأبي: إذا أردت أن تتصدق صدقةً فاجعلها عن أبويك؛ فإنه یلحقهما أجرها ولاینتقص من أجرك شیئاً". ( شعب الإیمان ، ٦/ ٢٠٤، رقم: ٧٩١١، ط: دارالکتب العلمیة، بیروت)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : جب تم صدقہ کرنا چاہو ، تو اپنے والدین کی طرف سے کرو؛ کیوں کہ اس کا ثواب ان کو ملتا ہے اور تمہارے اجر میں بھی کمی نہیں کی جاتی۔

مجمع الزوائد میں ہے:

"وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: إذا تصدق بصدقة تطوعاً أن یجعلها عن أبویه فیکون لهما أجرها، ولاینتقص من أجره شیئاً". رواه الطبراني في الأوسط. وفیه خارجة بن مصعب الضبي وهو ضعیف". (مجمع الزوائد، باب الصدقة علی المیت، ۳ / ۱۳۸، ۱۳۹، رقم: ٤۷٦۹، ط: دار الكتب العلمية بيرت)

یعنی کوئی شخص نفلی صدقہ والدین کی طرف سے کرے تو  ان دونوں کو ثواب ملے گا، اور صدقہ کرنے والے کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔

عمدة القاري علي صحيح البخاري  میں ہے:

"قال الخطابي: وفیه دلیل علی استحباب تلاوة الکتاب العزیز علی القبور؛ لأنه إذا کان یرجی عن المیت التخفیف بتسبیح الشجر فتلاوة القرآن سورة یٰس يخفف الله عنهم یومئذ". (عمدة القاری، کتاب الوضوء ، باب من الکبائر أن لایستتر من بوله، ٢ / ٥٩٨)

البحر الرائق میں ہے:

"فَإِنَّ مَنْ صَامَ أَوْ صَلَّى أَوْ تَصَدَّقَ وَجَعَلَ ثَوَابَهُ لِغَيْرِهِ مِنْ الْأَمْوَاتِ أَوْ الْأَحْيَاءِ جَازَ وَيَصِلُ ثَوَابُهَا إلَيْهِمْ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ، وَقَدْ صَحَّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَنَّهُ ضَحَّى بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ: أَحَدُهُمَا: عَنْ نَفْسِهِ، وَالْآخَرُ: عَنْ أُمَّتِهِ مِمَّنْ آمَنَ بِوَحْدَانِيَّةِ اللَّهِ تَعَالَى وَبِرِسَالَتِهِ» صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَرُوِيَ «أَنَّ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ- سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: إنَّ أُمِّي كَانَتْ تُحِبُّ الصَّدَقَةَ أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَصَدَّقْ». وَعَلَيْهِ عَمَلُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ لَدُنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إلَى يَوْمِنَا هَذَا مِنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ، وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ عَلَيْهَا، وَالتَّكْفِينِ، وَالصَّدَقَاتِ، وَالصَّوْمِ، وَالصَّلَاةِ، وَجَعْلِ ثَوَابِهَا لِلْأَمْوَاتِ، وَلَا امْتِنَاعَ فِي الْعَقْلِ أَيْضًا؛ لِأَنَّ إعْطَاءَ الثَّوَابِ مِنْ اللَّهِ تَعَالَى إفْضَالٌ مِنْهُ لَا اسْتِحْقَاقَ عَلَيْهِ، فَلَهُ أَنْ يَتَفَضَّلَ عَلَى مَنْ عَمِلَ لِأَجْلِهِ بِجَعْلِ الثَّوَابِ لَهُ، كَمَا لَهُ أَنْ يَتَفَضَّلَ بِإِعْطَاءِ الثَّوَابِ مِنْ غَيْرِ عَمَلٍ رَأْسًا". (كتاب الحج، فَصْلٌ نَبَاتَ الْحَرَمِ، ٢ / ٢١٢)

البحر الرائق میں ہے:

"والأصل فیه أن الإنسان له أن یجعل ثواب عمله لغیره صلاةً أو صوماً أو صدقةً أو قراءة قرآن أو ذکراً أو حجاً أو غیر ذلك عند أصحابنا بالکتاب والسنة". ( البحرالرائق، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر، ٣/ ٥٩)

حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح  میں ہے:

"فللإنسان أن یجعل ثواب عمله لغیره عند أهل السنة والجماعة سواء کان المجعول له حیًّا أو میتًا من غیرأن ینقص من أجره شيء. وأخرج الطبراني والبیهقي في الشعب عن ابن عمر قال: قال رسول الله ﷺ: إذا تصدق أحدکم بصدقة تطوعاً فلیجعلها عن أبو یه؛ فیکون لهما أجرها ولاینقص من أجره شيء". (حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الصلاة، باب أحکام الجنائز، فصل في زیارة القبور )

ذیل میں علماءِ عرب کے معتبر مفتی شیخ محمد صالح المنجد  کی جانب سے جاری کردہ فتوی بطورِ تائید کے نقل کیا جاتا ہے، جس میں ایصالِ ثواب کو  نہ صرف جائز قرار دیا گیا ہے،  بلکہ ایصالِ ثواب کرنے والے کو بھی مستحقِ اجر قرار دیا گیا ہے،  انہوں نے مفتی اعظم سعودیہ شیخ بن باز رحمہ اللہ کے فتوی کو نقل کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ علماءِ سعودیہ کے ہاں بھی نیک اعمال کا ایصالِ ثواب جائزہے:

"الحمد لله

الصدقة عن الميت تنفعه ويصل ثوابها إليه بإجماع المسلمين. وقد سبق بيان هذا في جواب السؤال: (42384). وكذلك ينال المتصدِّقُ الأجرَ على هذه الصدقة. ويدل على ذلك ما رواه الإمام مسلم في " صحيحه" (1004): عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْها : " أَنَّ رَجُلا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أُمِّيَ افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا (أي: ماتت فجأة )، وَإِنِّي أَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، فَلِي أَجْرٌ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهَا؟ قَالَ: ( نَعَمْ )".

قال النووي رحمه الله: "وَفِي هَذَا الْحَدِيث جَوَاز الصَّدَقَة عَنْ الْمَيِّت وَاسْتِحْبَابهَا، وَأَنَّ ثَوَابهَا يَصِلهُ وَيَنْفَعهُ، وَيَنْفَع الْمُتَصَدِّق أَيْضًا، وَهَذَا كُلّه أَجْمَعَ عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ ". انتهى من "شرح صحيح مسلم " (11/ 84).

وقال الشيخ ابن باز: "فالصدقة تنفع الميت، ويرجى للمتصدِّق مثل الأجر الذي يحصل للميت؛ لأنه محسن متبرع، فيرجى له مثل ما بذل، كما قال عليه الصلاة والسلام: (من دل على خير فله مثل أجر فاعله)، فالمؤمن إذا دعا إلى خير، أو فعل خيراً في غيره يرجى له مثل أجره، فإذا تصدق عن أبيه أو عن أمه أو ما أشبه ذلك فللمتصدق عنه أجر، وللباذل أجر. وهكذا إذا حج عن أبيه أو عن أمه فله أجر، ولأبيه وأمه أجر، ويرجى أن يكون مثلهم أو أكثر لفعله الطيب، وصلته للرحم، وبره لوالديه، وهكذا أمثال ذلك، وفضل الله واسع. وقاعدة الشرع في مثل هذا: أن المحسن إلى غيره له أجر عظيم، وأنه إذا فعل معروفاً عن غيره يرجى له مثل الأجر الذي يحصل لمن فعل عنه ذلك المعروف". انتهى من " فتاوى نور على الدرب" (14/313). والله أعلم". ( بعنوان: إذا تصدق عن الميت ، فهل له أجر الصدقة؟)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200141

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں