میرے جیسا یا مجھ سے بھی زیادہ غریب مسلمان ہرگز نہیں چاہتا کہ صدقہ، زکاۃ اور خیرات کا مال استعمال کرے، پھر کیوں آپ کے مدرسہ سمیت تمام مدارس ایسے طلباء کے نام پر زکاۃ، صدقہ اور خیرات جمع کرتے ہیں اور اس میں سے خود بھی اپنی جائیدادیں بناتے ہیں۔ کیا اسلام میں اس بات کی اجازت ہے کہ والدین اور ورثاء کی اجازت کے بغیر ان کے بچوں کے نام پر زکاۃ، خیرات، صدقات اور عطیات جمع کیے جائیں؟
واضح رہے کہ ادائیگی زکاۃ کا واحد مصرف مستحقینِ زکاۃ کو اس کا مالک بناکر دیناہے، زکاۃ کی رقوم سے تعمیرات کرنا، جائیداد بنانا شرعاً جائز نہیں، اور یہ مسئلہ اہلِ مدارس کے علم میں ہے، لہٰذا مساجد و مدارس کی تعمیرات میں اس بات کا اہتمام کیا جاتاہے کہ زکاۃ و صدقاتِ واجبہ کی رقوم یا حرام رقم تعمیرات میں صرف نہ کی جائے، صرف حلال عطیات سے ہی تعمیرات کی جاتی ہیں، اور الحمد للہ ہمارے ادارے میں تعمیرات کے لیے مستقل مد قائم ہے۔
زکاۃ اور صدقاتِ واجبہ کی رقوم سے تعمیرات تو درکنار، اس سے اساتذہ کرام کو تنخواہ بھی نہیں دی جاتی، بلکہ جو طلبہ زکاۃ کے مستحق نہیں ہوتے ان پر بھی زکاۃ کا ایک روپیہ خرچ نہیں کیا جاتا، لہٰذا اہلِ مدارس کے بارے میں یہ دعوی کرنا کہ وہ طلبہ کے نام پر زکاۃ جمع کرکے اپنی جائیداد بناتے ہیں، محض بدگمانی پر مبنی و دعوی بلا دلیل ہے، کسی بھی مسلمان کے بارے میں بلادلیل بدگمانی کرنے کو قرآنِ مجید میں گناہ قرار دے کر اس سے منع کیا گیاہے، لہٰذا علماءِ کرام کے بارے میں بدگمانی سے اجتناب ضروری ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144010201209
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن