بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کن گناہوں کی معافی نہیں ہے؟


سوال

کن گناہوں کی معافی کسی حالت میں بھی نہیں ہے؟  کفر اور شرک کو چھوڑ کر بتائیں۔ برائے مہربانی کفر اور شرک کی بات نہ کریں۔ اس سے ہم واقف ہیں۔

جواب

کفر اور شرک کے علاوہ جتنے کبیرہ گناہ ہیں، وہ سب توبہ سے معاف ہوسکتے ہیں بشرطیکہ توبہ سچی توبہ ہو ،سچی توبہ کا مطلب یہ ہے کہ دل سے پشیمانی ہو، اس گناہ کو فوراً ترک کردیا جائے اور آئندہ نہ کرنے کا پختہ عزم ہو، اور اگر اس گناہ کی وجہ سے کسی کی حق تلفی ہوئی ہو تو اس کی ادائیگی یا تلافی کی کوشش شروع کردی جائے۔ یعنی اگر حقوق اللہ (نماز ،روزہ ،زکوۃ ،حج وغیرہ) ذمہ پرہیں، تو انہیں ادا کرنا شروع کردے۔ اور اگر حقوق العباد میں کوتاہی کی ہو تو صاحبِ حق کو اس کا حق ادا کرے یا  اس سے معاف کروالے، بندے کا حق اس کے معاف کیے بغیر معاف نہیں ہوسکتا،  حقوق العباد سے متعلق گناہوں سے توبہ کی تکمیل کے لیے یہ ضروری شرط ہے۔

اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز سے وسیع ہے، وہ کسی کو بے شمار گناہوں کے باوجود بھی معاف کرکے جنت میں داخل کرسکتاہے، اور اس میں وہ حق بجانب ہوگا، تاہم یہ بھی ملحوظ رہے کہ رحمت اور معافی کی امید پر گناہوں میں مبتلا ہونا عقل مندی نہیں، حماقت ہے، حدیث پاک میں ایسے شخص کو بے وقوف کہا گیا ہے جو خواہشِ نفس کی پیروی کرے اور اللہ تعالیٰ سے امیدیں اور آرزو لگائے رکھے کہ وہ کریم ہے معاف کردے گا، جب کہ عقل مند اس شخص کو قرار دیا گیا ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور آخرت کی تیاری کرے۔ مسلمان کی شان یہ ہے کہ جس کام سے اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ ﷺ نے ناراضی کا اظہار فرمادیا، اس کام کے قریب بھی نہ جائے۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200636

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں