بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کفریہ وساوس / "میں کافر ہوں" کہنا


سوال

اگر کوئی شخص دل میں کفریہ الفاظ ادا کرے، کیا وہ کافر بن جاتاہے؟ اگر کوئی شخص اللہ تعالی کے ساتھ  کوئی شریک نہ ٹھہرائے، صرف یہ کہے کہ میں کافر ہوں،  کیا وہ کافر بن جاتا ہے؟

جواب

دل میں غیر اختیاری طور پر  اس طرح کے خیالات اور وسوسوں کے آنےسے انسان دینِ اسلام سے خارج نہیں ہوتا، بلکہ اس طرح کے وساوس آنے پر انہیں  دل سے برا سمجھنا  اور جھڑکنا  ایمان کی علامت ہے،  لہذا ان خیالات اور وسوسوں سے پریشان نہ ہوں ، اور ان کی طرف بالکل دھیان نہ دیں۔

ان وسوسوں  اور برے خیالات کے علاج کے لیے درج ذیل  نسخہ نبوی ﷺ پر عمل کیا جائے:

(1)  أعُوذُ بِالله (2) اٰمَنْتُ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِه کا  ورد کرے۔(3)  هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْم  (4) نیز  رَّبِّ أَعُوْذُبِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ وَأَعُوْذُ بِكَ رَبِّ أَنْ یَّحْضُرُوْنِ  کا کثرت سے ورد بھی ہر طرح کے شیطانی شکوک ووساوس کے دور کرنے میں مفید ہے۔

واضح رہے کہ عام حالات میں (مثلاً اکراہ کی صورت نہ ہو) کفریہ الفاظ زبان سے ادا کرنے سے آدمی کافر ہوجاتا ہے،  چاہے اس کے دل میں کفر نہ ہو؛ لہذا اگر زبان سے کہا کہ "میں کافر ہوں"  تو ایسا آدمی کافر ہوجائے گا، اسے توبہ و استغفار کے ساتھ  تجدیدِ ایمان کرنا ہوگا، اور اگر شادہ شدہ ہے تو تجدیدِ ایمان کے بعد تجدیدِ نکاح بھی کرنا ہوگا۔ اور اگر صرف دل میں ایسا خیال آیا (عقیدے کی صورت میں جاگزیں نہیں ہوا) تو اس کا حکم پہلے بیان ہوچکا ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 222):
"وفي الفتح من هزل بلفظ كفر ارتد وإن لم يعتقده للاستخفاف فهو ككفر العناد".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 222):
"(قوله: من هزل بلفظ كفر) أي تكلم به باختياره غير قاصد معناه".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200532

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں