بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کو رقم دے کر اس پر ماہانہ فکس (متعین) نفع لینا


سوال

ایک دوست نے ایک سال  پہلے مجھے اس معاہدے پر دس لاکھ دیے کہ مجھے  فکس تیس ہزار ماہانہ چاہیے، نقصان نفع تمہارا، آج ایک سال ہوگیا ہے ، اب میں اس کی رقم دینا چاہتا ہوں تو  اس نے کہا جب تک آپ پیسے نہیں دوگے  تب تک پروفٹ (نفع)  دیتے رہوگے  یا جتنے دو گے اس کا پروفٹ ختم ہو،  میں نے اس کے پیسوں کے لیے پانچ مہینہ کا وقت مانگا تھا، شرعی راہ نمائی فرمائیں کہ اس کا حق ہے پانچ مہینے کے وقت پر یا نہیں؟

 

جواب

واضح رہے کہ کسی کاروبار میں رقم لگا کر نفع حاصل کرنے کے جائز ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ  نفع کے ساتھ نقصان میں بھی شرکت ہو  اور  نفع بھی فکس رقم کی صورت میں مقرر نہ ہو ، بلکہ مضاربت (انویسمنٹ) میں  نفع کی تعیین نفع کے فیصد کے اعتبار سے کرنا ضروری ہے، اگر نفع کی تعیین ایک مقرر  رقم کے ذریعے کی جائے، یا نقصان کی شرط کام کرنے والے ہی پر لگائی جائے، یا کاروبار ہی نہ ہو، بلکہ محض رقم دے کر نفع لیا جائے تو یہ جائز نہیں ہے، بلکہ یہ قرض دے کر اس پر نفع حاصل کرنا ہے، اور قرض دے کر اس پر مشروط نفع حاصل کرنا سود ہے، اور سود کا لینا،دینا، اس کا معاملہ کرنا ناجائز، حرام اور گناہِ  کبیرہ ہے۔

لہذا آپ نے سوال میں جو صورت ذکر کی ہے وہ شرعاً ناجائز تھی، آپ کے پاس آپ کے دوست کی جو رقم ہے وہی آپ کو واپس کرنا ضروری ہے۔
حدیثِ مبارک  میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه» ، وقال: «هم سواء»". (الصحیح لمسلم، 3/1219، باب لعن آكل الربا ومؤكله، ط:، دار احیاء التراث ، بیروت)(مشکاۃ المصابیح،  باب الربوا، ص: 243، قدیمی)

الجامع الصغير  میں ہے: 

"كل قرض جر منفعةً فهو رباً". (الجامع الصغیر للسیوطی، ص:395، برقم :9728، ط: دارالکتب العلمیہ، بیروت)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"(ومنها) : أن يكون الربح جزءًا شائعًا في الجملة، لا معينًا، فإن عينا عشرةً، أو مائةً، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدةً؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح والتعيين يقطع الشركة لجواز أن لايحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلايتحقق الشركة في الربح". (6/ 59، کتاب الشرکة، فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة، ط: سعید) فقط والله أعلم

 


فتوی نمبر : 144107200167

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں