بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرونا وائرس کی وجہ سے جمعہ کی نماز پر پابندی ہو تو کیا کرے؟


سوال

متحدہ عرب امارات(UAE) میں چار ہفتوں کے لیے تمام مساجد بند کردی گئی ہیں  نمازیں تو گھر پر جماعت سے پڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں، جمعہ کی نماز کیسے ادا کریں؟

جواب

شریعتِ مطہرہ میں مسجد میں باجماعت نماز نہ پڑھنے کا ایک عذر یہ بھی ہے کہ آدمی ایسی حالت میں ہو جس سے انسانوں کو یا فرشتوں کو اس سے اذیت ہو، اسی وجہ سے جس نے نماز سے پہلے بدبودار چیز کھالی ہو تو اسے اس حالت میں مسجد نہیں جانا چاہیے،  بلکہ منہ سے بدبو دور کرکے مسجد جانا چاہیے، فقہاء کرام نے ایسے مریض کو بھی اس میں شمار کیا ہے جس سے لوگوں کو طبعی طور پر کراہت و نفرت ہوتی ہو جیسے جذامی۔ مذکورہ تفصیل کی روشنی میں کرونا وائرس کے مریض کو بھی مسجد میں نماز نہ پڑھنے کے سلسلے میں معذور سمجھا جاسکتا ہے۔

کفایت المفتی میں ہے :

"۔۔۔ان صورتوں  میں خود مجذوم پر لازم ہے کہ وہ مسجد میں نہ جائے اور جماعت میں شریک نہ ہو اور اگر وہ نہ مانے تو لوگوں کو حق ہے کہ وہ اسے دخول مسجد اور شرکت جماعت سے روک دیں اور اس میں مسجد محلہ اور مسجد غیر محلہ کا فرق نہیں ہے، محلہ کی مسجد سے بھی روکا جاسکتا ہے تو غیر محلہ کی مسجد سے بالاولی روکنا جائز ہے اور یہ روکنا بیماری کے متعدی ہونے کے اعتقاد پر مبنی نہیں ہے بلکہ تعدیہ کی شرعاً کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ نمازیوں کی ایذا یا خوف تلویث مسجد یا تنجیس وباء نفرت و فروش پر مبنی ہے۔ (ج۳ / ص ۱۳۸، دار الاشاعت)

                             تاہم جس محلہ میں کرونا وائرس کی وباء عام نہ ہو تو کرونا وائرس کے ڈر سے جماعت کی نماز ترک کردینا شرعی عذر نہیں ہے، بلکہ توہم پرستی ہے جو کہ ممنوع ہے۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (6 / 146):

"وكذلك ألحق بذلك بعضهم من بفيه بخر، أو به جرح له رائحة، وكذلك القصاب والسماك والمجذوم والأبرص أولى بالإلحاق، وصرح بالمجذوم ابن بطال، ونقل عن سحنون: لاأرى الجمعة عليه، واحتج بالحديث. وألحق بالحديث: كل من آذى الناس بلسانه في المسجد، وبه أفتى ابن عمر، رضي الله تعالى عنهما، وهو أصل في نفي كل ما يتأذى به".

                           اور جس محلہ میں کروا وائرس کی وباء عام ہوجائے تو اس محلہ کے لوگوں کے لیے مسجد میں نماز نہ پڑھنے کی رخصت تو ہوگی، البتہ اس محلے کے چند لوگوں کو پھر بھی مسجد میں باجماعت نمازوں کا اہتمام کرنا ہوگا  اور اگر مسجد میں باجماعت نماز پورے محلے والوں نے ترک کردی تو پورا محلہ گناہ گار ہوگا،؛ کیوں کہ مسجد کو اس کے اعمال سے آباد رکھنا فرض ِ کفایہ ہے۔

 مذکورہ بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ اصحابِ اقتدارکا مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنے پر پابندی لگانا جائز نہیں ہے ۔ اور بغیر شرعی عذر کے مساجد کو بند کردینے پر نصوص میں سخت وعید وارد ہوئی ہے اور ان کے اس عمل کو "ظلم" قرار دیا گیا ہے۔

التفسير المظهري (1 / 116):

"منصوب على العلية اى كراهة ان يذكر وسعى في خرابها بالتعطيل عن ذكر الله فانهم لما منعوا من يعمره بالذكر فقد سعوا في خرابه".

فتح القدير للشوكاني (1 / 153):

"والمراد بالسعي في خرابها: هو السعي في هدمها، ورفع بنيانها، ويجوز أن يراد بالخراب: تعطيلها عن الطاعات التي وضعت لها، فيكون أعم من قوله: أن يذكر فيها اسمه فيشمل جميع ما يمنع من الأمور التي بنيت لها المساجد، كتعلم العلم وتعليمه، والقعود للاعتكاف، وانتظار الصلاة ويجوز أن يراد ما هو أعم من الأمرين، من باب عموم المجاز".

تفسير الألوسي = روح المعاني (1 / 362):

"وكني بذكر اسم الله تعالى عما يوقع في المساجد من الصلوات والتقربات إلى الله تعالى بالأفعال القلبية والقالبية المأذون بفعلها فيها. وسعى في خرابها أي هدمها وتعطيلها".

تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير (4 / 12):

"المسألة الخامسة: السعي في تخريب المسجد قد يكون لوجهين. أحدهما: منع المصلين والمتعبدين والمتعهدين له من دخوله فيكون ذلك تخريبا. والثاني: بالهدم والتخريب".

تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير (4 / 13):

"وثانيها: قوله تعالى: {إنما يعمر مساجد الله من آمن بالله واليوم الآخر} [التوبة: 18] فجعل عمارة المسجد دليلا على الإيمان، بل الآية تدل بظاهرها على حصر الإيمان فيهم، لأن كلمة إنما للحصر".

تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير (4 / 13):

"هذه الآية التي نحن في تفسيرها وهي قوله تعالى: {ومن أظلم ممن منع مساجد الله أن يذكر فيها اسمه} فإن ظاهرها يقتضي أن يكون الساعي في تخريب المساجد أسوأ حالاً من المشرك".

تفسير القرطبي (2 / 77):

"خراب المساجد قد يكون حقيقيًّا كتخريب بخت نصر والنصارى بيت المقدس على ما ذكر أنهم غزوا بني إسرائيل مع بعض ملوكهم، - قيل: اسمه نطوس بن اسبيسانوس الرومي فيما ذكر الغزنوي- فقتلوا وسبوا، وحرقوا التوراة، وقذفوا في بيت المقدس العذرة وخربوه. ويكون مجازًا كمنع المشركين المسلمين حين صدوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن المسجد الحرام، وعلى الجملة فتعطيل المساجد عن الصلاة وإظهار شعائر الإسلام فيها خراب لها".

أحكام القرآن للجصاص ت قمحاوي (1 / 75):

"{ومن أظلم ممن منع مساجد الله أن يذكر فيها اسمه} والمنع يكون من وجهين: أحدهما بالقهر والغلبة، والآخر الاعتقاد والديانة والحكم؛ لأن من اعتقد من جهة الديانة المنع من ذكر الله في المساجد فجائز أن يقال فيه: قد منع مسجدًا أن يذكر فيه اسمه فيكون المنع هاهنا معناه الحظر، كما جائز أن يقال: منع الله الكافرين من الكفر والعصاة من المعاصي بأن حظرها عليهم وأوعدهم على فعلها، فلما كان اللفظ منتظمًا للأمرين وجب استعماله على الاحتمالين".

اور غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ  باجماعت نمازیں پڑھنا اور بالخصوص جمعہ کی نماز پڑھنا، یہ شعائرِ اسلام میں سے ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1 / 155):

"(وأما) توارث الأمة فلأن الأمة من لدن رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى يومنا هذا واظبت عليها وعلى النكير على تاركها، والمواظبة على هذا الوجه دليل الوجوب، وليس هذا اختلافاً في الحقيقة بل من حيث العبارة؛ لأن السنة المؤكدة، والواجب سواء، خصوصًا ما كان من شعائر الإسلام ألا ترى أن الكرخي سماها سنة ثم فسرها بالواجب فقال: الجماعة سنة لايرخص لأحد التأخر عنها إلا لعذر؟ وهو تفسير الواجب عند العامة".

نیز حکومت کے باجماعت نمازوں پر پابندی لگا دینے کی صورت میں ایک طرف تو یہ کوشش جاری رکھنی چاہیے کہ انہیں اسلامی احکام کے بارے میں آگاہ کریں اور ہر ممکن کوشش کریں کہ وہ اس پابندی کو ہٹادیں۔ اور جب تک پابندی رہے تو خوفِ ظلم کی وجہ سے اور حرج کی نفی کے پیشِ نظر مسجد کی نماز چھوٹ جانے کا عذر معتبر ہے۔ ایسی صورت میں کوشش کرے کہ گھر پر ہی باجماعت نماز کا اہتمام ہو۔ اور جمعہ کی نماز میں چوں کہ مسجد کا ہونا شرط نہیں ہے؛ لہذا امام کے علاوہ کم از کم تین مقتدی ہوں تو جمعہ کی نماز صحیح ہوجائے گی؛ لہذا مسجد کی اذانِ ثانیہ کے بعد (اگر مسجد میں اذان نہ ہو تو خود اذان دے دیں) امام خطبہ مسنونہ پڑھ کر دو رکعت نماز پڑھا دے، چاہے گھر میں ہوں یا کسی اور جگہ جمعہ ہو کر پڑھ لیں۔(جمعہ کا خطبہ دیکھ کر بھی پڑھا جاسکتا ہے)

الفتاوى الهندية (1 / 148):

"(ومنها الجماعة) وأقلها ثلاثة سوى الإمام".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 154):

"(قوله: وعدم خوف) أي من سلطان أو لص، منح".

جمعہ کا مسنون خطبہ جامعہ کی درج ذیل لنک میں ملاحظہ کریں :

جمعہ کا خطبہ 

اس مسئلے سے متعلق مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

کرونا وائرس اور باجماعت نمازوں پر پابندی!

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200865

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں