بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کرونا وائرس (corona virus) کی وجہ سے نمازِ جمعہ چھوڑنے کا حکم اور اس حوالے سے شرعی اَحکام کی راہ نمائی


سوال

 کیا کورونا وائرس کے پھیلاؤ  کی وجہ سے نمازِ  جمعہ کو چھوڑنا جائز ہے؟

جواب

                            اس وقت پوری دنیا عموماً اور عالمِ اسلام خصوصاً، ابتلا کے جس دور سے گزر رہاہے، کسی بھی حساس اور دردِ دل رکھنے والے شخص سے یہ پوشیدہ نہیں ہے، دیگر مسائل و اَحوال ایک طرف، رواں اَیام میں ایک وبائی مرض  (corona virus) کے خوف اور اندیشوں  نے جس طرح اور جس  پیمانے پر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے شاید انسانی تاریخ میں اتنے وسیع پیمانے پر کسی وبائی مرض کے پھیلاؤ  کی مثال نہیں ملتی، کرۂ اَرض کے مشرق سے لے کر مغرب  اور شمال سے جنوب تک، ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر یا پس ماندہ ممالک، عرب ہوں یا عجم، سرد ہوں یا گرم ممالک اور ہر ملت و مذہب کے افراد پرجس طرح اس وبا کا خوف طاری ہے، یہ عبرت انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ وحدہ لاشریک لہ کے وجود و قدرت کا بین ثبوت ہے۔

                       ان حالات میں ہماری جامعہ "جامعہ علوم اسلامیہ"،  علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن، کراچی،  کی دار الافتاء میں مذکورہ وائرس کے پھیلاؤ کے  نتیجے میں پیدا ہونے والے اَحوال اور ان سے متعلقہ شرعی اَحکام (مثلاً عمرہ کی ادائیگی، نماز کے دوران ماسک پہننے، اور الکوحل پر مشتمل  "HAND SANITIZER"  کے استعمال کا حکم وغیرہ) کے حوالے سے بہت سے سوالات موصول ہوئے، جن کے جوابات جاری کیے جاچکے ہیں، اسی ضمن میں دنیا کے مختلف ممالک سے بہت سے سائلین نے  مساجد میں نماز باجماعت کا حکم، نماز باجماعت پر پابندی اور خصوصاً نمازِ جمعہ پر پابندی کے حوالے سے مختلف سوالات اِرسال کیے ہیں، نیز اس حوالے سے مختلف حلقوں اور طبقات کی طرف سے شرعی راہ نمائی کے عنوان سے ہدایات بھی دی جارہی ہیں،  موجودہ حالات کے تناظر میں مناسب معلوم ہوتاہے کہ جمعہ اور نماز باجماعت کے لیے مساجد کی بالکلیہ بندش اور پیدا ہونے والی بحرانی کیفیت کے حوالے سے امتِ مسلمہ کی جامع اور حتی الوسع بھر پور راہ نمائی کردی جائے۔  چناں چہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے عرض ہے:

حامدًا و مصلیًّا و مسلِّمًا، أمّا بعد!

                سائل کا مذکورہ سوال بیرونِ ملک سے اور بہت ہی عام ہے، موجودہ اَحوال کے تناظر میں اس کے مختلف پہلو ہوسکتے ہیں،  تین پہلو درج ذیل ہیں:

(1) یقینی طور پر کورونا وائرس کے شکار مریض کا نمازِ جمعہ اور جماعات چھوڑنے کا شرعی حکم۔

(2) کورونا وائرس سے حفاظتی تدبیر کے طور پر صحت مند افراد کا اَز خود نمازِ جمعہ یا جماعات میں شریک نہ ہونے کا شرعی حکم۔

(3) وائرس سے بچاؤ  اور حفاظتی نقطۂ نگاہ سے جمعہ و  جماعات کے لیے مساجد  کی بندش یا اس کا انتظام ترک کردینے کا حکم۔

                               ذیل میں تینوں پہلوؤں کے مطابق شرعی حکم نیز  وبائی مرض میں مبتلا افراد کے اعتبار سے دیگر ضروری اَحکام بیان کیے جاتے ہیں:

 (1) یقینی طور پر کورونا وائرس کے شکار مریض کے لیے جمعہ اور جماعت میں شریک ہونے، نیز ان کی دیگر اجتماعات میں شرکت پر پابندی کا حکم:

                       شریعتِ مطہرہ میں مسجد میں باجماعت نماز نہ پڑھنے کا ایک عذر یہ بھی ہے کہ آدمی ایسی حالت میں ہو جس سے انسانوں کو یا فرشتوں کو اس سے اذیت ہو، اسی وجہ سے جس نے نماز سے پہلے بدبودار چیز کھالی ہو تو اسے اس حالت میں مسجد نہیں جانا چاہیے، بلکہ منہ سے بدبو دور کرکے مسجد جانا چاہیے، فقہاءِ کرام نے ایسے مریض کو بھی اس میں شمار کیا ہے جس سے لوگوں کو طبعی طور پر کراہت و نفرت ہوتی ہو،  جیسے جذامی۔ مذکورہ تفصیل کی روشنی میں یقینی طور پر کرونا وائرس میں مبتلا مریض کو  مسجد میں نماز نہ پڑھنے کے سلسلے میں معذور سمجھا جائے گا۔

                                البتہ ایسے مریض کے لیے جمعہ کی نماز کے حوالے سے کیا حکم ہوگا؟  ’’سحنون مالکی‘‘ کے بقول ایسے شخص کا لوگوں کی ایذا کا سبب بننا یقینی ہو تو  اس سے جمعہ کا وجوب ساقط ہوجائے گا (بحوالہ عمدۃ القاری)،  اور ’’قاضی عیاض مالکی‘‘ کے بقول صرف جمعہ کی نماز  میں یہ شرکت کرے گا، (الکامل للنووی علی صحیح مسلم)، البتہ پنج وقتہ نمازوں کی جماعت میں لوگوں کو ایذا سے محفوظ رکھنے کے لیے ایسے شخص کو جماعت میں شامل نہیں ہونا چاہیے، اور ایسے مریض کو دیگر اجتماعی جگہوں سے بدرجہ اولیٰ دور رہنا چاہیے۔

                               عمدۃ القاری اور شرح نووی کی عبارت میں تضاد نہیں ہے، بلکہ عمدۃ القاری کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ اس سے جمعے کا وجوب ساقط ہوجائے گا، تاہم اگر وہ شرکت کرنا چاہے تو منع نہیں کیا جائے گا، اور شرح نووی کا حاصل بھی یہی ہے کہ جمعہ سے منع نہیں کیا جائے گا، یعنی اگر مرض کی وجہ سے وہ شریک نہ ہو تو  ایسا کرسکتاہے، کیوں کہ اس پر جمعہ واجب نہیں ہوگا۔

                           جہاں تک اسے اجتماعات سے روکنے کا حکم ہے تو  جمعہ کے علاوہ دیگر اجتماعات سے اسے روکا بھی جاسکتاہے، تاہم جمعہ کی نماز میں اس کی شرکت پر باپندی لگانا درست نہیں ہے۔باقی اس پر جمعہ واجب ہے یا نہیں؟ اس کا حکم ابھی بیان کیا جاچکاہے۔

یقینی طور پر کرونا جیسے وبائی مرض کے شکار اَفراد کے لیے مستقل علاج خانے (ہسپتال) قائم کرنے نیز ان کے حقوق کے حوالے سے حکم:

                     ایسے امراض میں مبتلا افراد کی تعداد اگر زیادہ ہوجائے تو ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جائے؟ اس حوالے سے علامہ نووی رحمہ اللہ نے قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ سے مفید و مبسوط تفصیل نقل کی ہے، چند سطور بعد وہ باحوالہ آجائے گی، اس کا خلاصہ اور اس سے مستفاد مسائل یہ ہیں:

                     اگر جذامی (یا دیگر اس طرح کے مریض واقعتاً) تعداد میں زیادہ ہوجائیں تو  اہلِ علم کی رائے کے مطابق ان کے لیے جدا اور مستقل محفوظ جگہ بنائی جائے، جہاں ان کی عزتِ نفس، طبی سہولیات وغیرہ کی خیال داری بھی ملحوظ رہے اور لوگوں کے رویے سے انہیں کسی قسم کا اِحساس کم تری بھی لاحق نہ ہو، یعنی ان کے متعلقین اور تیمار دار اسباب کے تحت احتیاطی تدابیر اختیار کریں اس کی تو اجازت ہے، لیکن انہیں اچھوت بنادینا اور ہاتھ لگانے کے لیے بھی تیار نہ ہونا، جائز نہیں ہے، نیز اگر ایسے مریض کو علاج و خیال داری کی ضرورت ہو تو قریبی لوگوں کے ذمہ ان کی خیال داری لازم ہوگی، اور ان کے بنیادی ضروری منافع سے انہیں نہیں روکا جائے گا۔

                           اگر ایسے مریضوں کی تعداد زیادہ نہ ہو  یا  ان کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے دیگر لوگ ان کے لیے انتظامات نہ کریں تو ایسے مریضوں کو صحت مند افراد سے اختلاط رکھتے ہوئے اپنی ضروریات پوری کرنے سے نہیں روکا جائے گا۔

                           اگر کوئی مریض واقعتاً کرونا وغیرہ (وبائی) مرض میں مبتلا ہو اور  اس کی خدمت  اور تیمارداری کا انتظام ہو تو    ظاہری سبب کے طور پر  ایسے مرض میں مبتلا مریض سے احتیاط  کرنا جائز ہے، البتہ  ایسی صورت اختیار کی جائے کہ بیمار کی دل آزاری نہ ہو  اور   یہ عقیدہ بھی  نہ ہو کہ ایسے شخص کے قرب سے بیماری کا لگنا یقینی ہے، اگر یہ نظریہ ہو کہ بیماری لازمی طور پر متعدی ہوتی ہے تو یہ ایمان کے لیے خطرناک ہے، احادیثِ مبارکہ میں بیماریوں کے لازمی اور بذاتہ متعدی ہونے کے جاہلی عقیدے کی سختی سے تردید کی گئی ہے۔ اور اگر ایسے مریض کی بیماری میں تیمار داری اور خدمت کا  کوئی انتطام نہ ہو تو اس کی خدمت میں لگنا ضروری اور باعث اجر وثواب ہے،  جیساکہ صحیح بخاری کی درج ذیل روایت سے معلوم ہوتاہے کہ مسلمانوں نے جب مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو مدینہ منورہ کی آب و ہوا میں وبائی مرض تھا، جس کی وجہ سے بہت سے مہاجر صحابہ بیمار ہوگئے، لیکن صحابہ کرام ان مریضوں کی تیمار داری اور خیال داری اپنے ہی گھروں میں کرتے رہے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کی دعا سے یہ وبا مدینہ منورہ  سے منتقل کرکے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مدینہ منورہ کی آب و ہوا کو پاک کردیا، امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الطب کے تحت یہ حدیثِ مبارک  "باب من دعا برفع الوباء والحمی" عنوان کے تحت ذکر کی ہے، یعنی" وبا اور بخار کے ختم ہونے کی دعا کرنے کا بیان"۔

صحیح البخاری، کتاب الطب، باب من دعا برفع الوباء والحمی، (2/847) ط: قدیمي، کراچي:

"عن عائشة أنها قالت: لما قدم النبي ﷺ وعك أبوبکر وبلال قالت: فدخلت علیهما، فقلت: یا أبت کیف تجدك؟ ویا بلال کیف تجدك؟ قالت: وکان أبوبکر إذا أخذته الحمّی یقول:

کل امرء مصبح في أهله                   والموت أدنی من شراك نعله

وکان بلال إذا أقلع عنه یرفع عقیرته، فیقول:

ألالیت شعري هل أبیتنّ لیلة                بواد و حولي إذخر وجلیل

وهل أردن یومًا میاه مجنة                   وهل یبدون لي شامة و طفیل

قالت عائشة: فجئت رسول الله ﷺ فأخبرته، فقال: اللهم حبّب إلینا المدینة کحبّنا مکة أو أشدّ حبًّا، وصححها، وبارك لنا في صاعها و مدها، و انقل حمّاها فاجعلها بالجحفة".

مشکاة المصابیح، کتاب الصلاة، باب المساجد و مواضع الصلاة، الفصل الأول، (ص:68) ط: قدیمی کراچي:

"عن جابر قال: قال رسول الله ﷺ: من أکل من هذه الشجرة المنتنة فلایقربنّ مسجدنا؛ فإن الملائکة تتأذی مما یتأذی منه الإنس. متفق علیه".

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اس بدبودار پودے میں سے کچھ کھایا وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے؛ اس لیے کہ ملائکہ کو اس چیز سے تکلیف پہنچتی ہے جس سے انسان کو تکلیف پہنچتی ہے۔
صحیح البخاري، کتاب الطب، باب الهامة، (2/859) ط: قدیمي کراچي:

"عن أبي سلمة عن أبي هریرة قال: قال النبي ﷺ: لا عدوی و لاصفر و لا هامة، فقال أعرابي: یارسول الله! فما بال الإبل تکون في الرمل، لکأنها الظباء، فیخالطها البعیر الأجرب فیجربها؟ فقال رسول الله ﷺ: فمن أعدی الأول؟

وعن أبي سلمة سمع أبا هریرة یقول: قال النبي ﷺ لایوردن ممرض علی مصحح. و أنکر أبوهریرة الحدیث الأول، قلنا: ألم تحدّث أنه لاعدوی؟ فرطن بالحبشیة، قال أبوسلمة: فمارأیته نسي حدیثًا غیره".
ترجمہ: ابو سلمہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بیماریوں کے (بذاتہ) متعدی ہونے کی حقیقت نہیں ہے ۔۔۔ چناں چہ ایک اعرابی نے کہا: اے اللہ کے رسول! پھر اونٹوں کا کیا حال ہے کہ وہ ریت میں ایسے ہوتے ہیں گویا کہ (جلد کی ملائمت اور خوب صورتی میں) ہرن ہوں، پھر ان میں خارشی اونٹ ملتا ہے تو ان کو بھی خارشی بنادیتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (سب سے) پہلے (خارشی اونٹ) کو کس نے بیماری متعدی کی؟!!

ابوسلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بیمار اونٹوں والا شخص ہرگز اپنے اونٹ صحیح اونٹ والے کے پاس نہ لائے۔۔۔ الخ

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (6 / 146):

"وكذلك ألحق بذلك بعضهم من بفيه بخر، أو به جرح له رائحة، وكذلك القصاب والسماك والمجذوم والأبرص أولى بالإلحاق، وصرح بالمجذوم ابن بطال، ونقل عن سحنون: لاأرى الجمعة عليه، واحتج بالحديث. وألحق بالحديث: كل من آذى الناس بلسانه في المسجد، وبه أفتى ابن عمر، رضي الله تعالى عنهما، وهو أصل في نفي كل ما يتأذى به".

الصحیح لمسلم، کتاب السلام، باب اجتناب المجذوم و نحوه، (2/233) ط: قدیمي، کراچي:

"عن عمرو بن الشرید عن أبیه قال: کان في وفد ثقیف رجل مجذوم، فأرسل إلیه النبي ﷺ إنا قد بایعناك فارجع".

ترجمہ: عمرو بن شرید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ بنوثقیف کے وفد میں ایک جذامی شخص بھی آیا، رسول اللہ ﷺ نے اسے پیغام بھجوایا کہ ہم نے تمہیں (یہیں سے) بیعت کرلیا ہے، چناں چہ آپ لوٹ جائیے!

اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے علامہ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"(قوله: کان في وفد ثقیف رجل مجذوم فأرسل إلیه النبي ﷺ إنا قد بایعناك فارجع) هذا موافق للحدیث الآخر في صحیح البخاري: "و فرّ من المجذوم فرارك من الأسد"، وقد سبق شرح هذا الحدیث في "باب لاعدوی"، و أنه غیر مخالف لحدیث: "لایورد ممرض علی مصحح"، قال القاضي: قد اختلف الآثار عن النبي صلی الله علیه وسلم في قصة المجذوم، فثبت عنه الحدیثان المذکوران، وعن جابر أن النبي ﷺ أکل مع المجذوم وقال له: کل ثقة بالله و توکلاً علیه، وعن عائشة قالت: کان لنا مولی مجذوم، فکان یأکل في صحافي و یشرب في أقداحي و ینام علی فراشي.

قال: وقد ذهب عمر و غیره من السلف إلی الأکل معه و رأوا أن الأمر باجتنابه منسوخ. والصحیح الذي قاله الأکثرون و یتعین المصیر إلیه: "أنه لانسخ بل یجب الجمع بین الحدیثین، وحمل الأمر باجتنابه والفرار منه علی الاستحباب والاحتیاط، لا للوجوب، و أما الأکل معه ففعله لبیان الجواز". والله أعلم.

 ... قال القاضي: قالوا: و یمنع من المسجد و الاختلاط بالناس، قال: وکذلك اختلفوا في أنهم إذا کثروا هل یؤمرون أن یتخذوا لأنفسهم موضعًا منفردًا خارجًا عن الناس ولایمنعوا من التصرف في منافعهم، وعلیه أکثر الناس، أم لایلزهم التنحي، قال: ولم یختلفوا في القلیل منهم في أنهم لایمنعون، قال: ولایمنعون من صلاة الجمعة مع الناس ویمنعون من غیرها،قال: ولو استضرّ أهل قریة فیهم جذمي بمخالطتهم في الماء، فإن قدروا علی استنباط ماء بلاضرر أمروا به و إلا استنبط لهم الآخرون أو أقاموا من یستقي لهم، و إلا فلایمنعون. والله أعلم".
ترجمہ: ۔۔۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر اہلِ سلف کی رائے یہ ہے کہ ایسے مریض (جذامی) کے ساتھ کھانا کھایا جائے، اور ان کا خیال یہ ہے کہ اس سے دور رہنے کا حکم منسوخ ہے۔لیکن صحیح بات جو جمہور کی رائے ہے اور (تمام نصوص کو دیکھتے ہوئے) اسی نتیجے تک پہنچنا متعین ہوجاتاہے وہ یہ ہے: جذامی سے دور رہنے کا حکم منسوخ نہیں ہوا، بلکہ دونوں حدیثوں میں تطبیق ضروری ہے، لہٰذا مجذوم سے دور رہنے کا حکم استحباب اور احتیاط پر محمول ہے، نہ کہ وجوب پر، جہاں تک اس کے ساتھ کھانے کی بات ہے تو آپ ﷺ نے ایسا بیانِ جواز کے لیے کیا۔ واللہ اعلم (یعنی اگر کوئی ساتھ رہتاہے اور اسے اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل بھروسہ اور یقین ہے تو اسے دور رہنے اور اجتناب پر مجبور نہیں کیا جاسکتا) ۔۔۔ 

 قاضی عیاض فرماتے ہیں: علماء فرماتے ہیں: جذامی کو مسجد اور لوگوں کے ساتھ اختلاط سے روکا جائے گا۔ اور اہلِ علم کا اس میں اختلاف ہے کہ اگر جذامی مریض زیادہ ہوجائیں تو کیا انہیں حکم دیا جائے گا کہ وہ اپنے لیے لوگوں سے جدا مستقل جگہ بنائیں البتہ ان کے منافع والے تصرفات سے انہیں نہیں روکا جائے گا، یا ان پر صحت مند لوگوں سے دور رہنا لازم نہیں ہوگا؟ اکثر کی رائے پہلی والی ہے۔ البتہ اگر ایسے مریض کم ہوں تو بالاتفاق انہیں اختلاط سے نہیں روکا جائے گا۔ قاضی عیاض مزید فرماتے ہیں: انہیں جمعہ کی نماز سے نہیں روکا جائے گا، البتہ دیگر نمازوں کی جماعت سے روکا جائے گا۔ آگے فرماتے ہیں: اگر کسی بستی میں جذامی مریضوں کے پانی میں اختلاط کی وجہ سے بستی والوں کو ضرر لاحق ہو، تو اگر یہ جذامی مریض بغیر ضرر کے اپنے لیے پانی کا انتظام کرسکتے ہوں تو انہیں اس کا پابند کیا جائے گا، ورنہ دوسرے (صحت مند) لوگ ان کے لیے پانی کا انتظام کریں یا کسی کی ذمہ داری لگائیں کہ وہ ان کے لیے پانی بھرے، اور اگر یہ انتظام نہ ہوسکے تو جذامی مریضوں کو (اپنے ضروری منافع سے) نہیں روکا جائے گا۔ واللہ اعلم

کفایت المفتی میں ہے :

’’۔۔۔ان صورتوں  میں خود مجذوم پر لازم ہے کہ وہ مسجد میں نہ جائے اور جماعت میں شریک نہ ہو، اور اگر وہ نہ مانے تو لوگوں کو حق ہے کہ وہ اسے دخولِ مسجد اور شرکتِ جماعت سے روک دیں اور اس میں مسجد محلہ اور مسجد غیر محلہ کا فرق نہیں ہے، محلہ کی مسجد سے بھی روکا جاسکتا ہے تو غیر محلہ کی مسجد سے بالاولی روکنا جائز ہے اور یہ روکنا بیماری کے متعدی ہونے کے اعتقاد پر مبنی نہیں ہے، بلکہ تعدیہ کی شرعاً کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ نمازیوں کی ایذا یا خوفِ تلویث مسجد یا تنجیس وباء نفرت و فروش پر مبنی ہے‘‘۔ (ج۳ / ص ۱۳۸، دار الاشاعت)

امراض کے متعدی ہونے کی حقیقت:

                              باقی مرض متعدی ہوتا ہے یا نہیں؟  یہ اس تفصیل کا موقع نہیں ہے، اس بارے میں وارد  مختلف احادیثِ مبارکہ کے درمیاں شراحِ حدیث نے مختلف طرح سے تطبیق بیان کی ہے، جمہور محققین علماءِ کرام نے جو تطبیق دی ہے امام نووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی شرح میں اس کا خلاصہ لکھ دیا ہے۔

                              متقدمین میں سے علامہ طحاوی، ابن قتیبہ، بیہقی رحمہم اللہ اور بعد کے محققین میں سے امام نووی، ملاعلی قاری، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، مفتی رشید احمد گنگوہی اور علامہ انور شاہ کشمیری رحمہم اللہ سے یہ تطبیق منقول ہے کہ جن احادیثِ مبارکہ میں مرض کے متعدی ہونے کی نفی ہے اس سے مراد جاہلیت کے اس عقیدے کی نفی ہے کہ مرض بذاتہ یقینی طور پر متعدی ہوتاہے، بالفاظِ دیگر ہر مرض کے اندر مافوق الاسباب متعدی ہونے کی صلاحیت ہے، لہٰذا جاہلیت میں یہ نظریہ اس قدر پختہ تھا کہ مریض کے قریب جانے سے بیماری لازمی متعدی ہوتی ہے، وہ اس میں طبی اعتبار سے نہ فرق ملحوظ رکھتے تھے، نہ ہی اسے مشیت و قدرتِ خداوندی کا نتیجہ کہتے تھے، اس بداعتقادی کے قلع قمع کے لیے رسول اللہ ﷺ نے بیماری کے متعدی ہونے کی نفی فرمائی، باقی اللہ تعالیٰ کی قدرت اور تقدیر کے تحت اس کے ضرر یا سبب بننے کی نفی نہیں کی۔

                              اور جن احادیثِ مبارکہ میں بیماری متعدی ہونے یا مریض سے دور رہنے کا حکم ہے اس سے مراد ماتحت الاسباب، اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت اور تقدیرِ خداوندی کے تحت بیماری کا متعدی ہونا ہے، اگر اللہ پاک چاہیں تو بیماری لگے گی اور نہ چاہیں تو نہیں لگے گی، نیز ہر بیماری متعدی نہیں ہوتی، بلکہ  بعض بیماریاں سبب کے درجے میں متعدی ہوسکتی ہیں، اور اَسباب میں تاثیر پیدا کرنا محض اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرت ہے، عادت اور معمول کے مطابق اَسباب میں تاثیر ہوتی ہے، تاہم جس وقت اللہ چاہے وہ تاثیر ختم بھی کردیتاہے۔

                               یہ تفصیل اور تطبیق ماقبل میں مذکورہ احادیثِ مبارکہ نیز درج ذیل حدیثِ مبارک اور عبارت سے بھی ثابت ہوتی ہے۔

مشکاة المصابیح، کتاب الطب والرقی، باب الفال و الطیرة، الفصل الثاني، (ص:392) ط: قدیمي، کراچي:

"عن یحیی بن عبد الله بن بحیر قال: أخبرني من سمع فروة بن مسیك یقول: قلت: یارسول الله! عندنا أرض یقال لها: "أبین"، وهي أرض ریفنا و میرتنا، وإن وباء ها شدید، فقال: "دعها عنك؛ فإن من القرف التلف". رواه أبوداؤد".

بین السطور میں لکھا ہے:

"القَرَف: بالتحریك: مداناة المرض". 

شرح النووی علی صحیح مسلم، کتاب السلام، باب لاعدوی ولاطیرة ولاهامة ولاصفر ولا نوء ...، (2/230) ط: قدیمي کراچي:

"قال جمهور العلماء: یجب الجمع بین هذین الحدیثین وهما صحیحان، قالوا: وطریق الجمع أن حدیث: "لاعدوی" المراد به نفي ماکانت الجاهلیة تزعمه وتعتقده أن المرض والعاهة تعدی بطبعها لابفعل الله تعالی، وأما حدیث: "لایورد ممرض علی مصح" فأرشد فیه إلی مجانبة مایحصل الضرر عنده في العادة بفعل الله تعالیٰ وقدره، فنفی في الحدیث الأول العدوی بطبعها، ولم ینف حصول الضرر عند ذلك بقدر الله تعالی وفعله، و أرشد في الثاني إلی الاحتراز مما یحصل عنده الضرر بفعل الله تعالی و إرادته وقدره. فهذا الذي ذکرناه من تصحیح الحدیثین والجمع بینهما هو الصواب الذي علیه جمهور العلماء، ویتعین المصیر إلیه".

الصحیح لمسلم، کتاب الإیمان، باب بیان کفر من قال: مطرنا بالنوء، (1/59) ط: قدیمي، کراچي:

"عن زید بن خالد الجهني قال: صلی بنا رسول الله ﷺ صلاة الصبح بالحدیبیة في أثر سماء کانت من اللیل، فلمّا انصرف أقبل علی الناس فقال: هل تدرون ماذا قال ربکم؟ قالوا: الله و رسوله أعلم! قال: قال: أصبح من عبادي مؤمن بي و کافر، فأمّا من قال: مُطِرْنا بفضل الله و رحمته فذلك مؤمن بي و کافر بالکوکب، و أمّا من قال:  مُطِرْنَا بنوء کذا و کذا، فذلك کافر بي مؤمن بالکوکب".

ترجمہ: حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حدیبیہ میں رات بارش ہونے کے بعد (صبح کی) نماز پڑھائی، جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف رُخِ انور کرکے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں: میرے بندوں میں سے بعض صبح کے وقت مجھ پر ایمان لانے والے ہوئے اور کچھ میرے منکر، یعنی جس نے یوں کہا: ہم پر اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش برسی ہے، تو یہ مجھ پر ایمان لانے والا اور ستارے کا منکر ہے، اور جس نے  کہا: ہم پر فلاں فلاں نچھتر (ستاروں) کی وجہ سے بارش برسی ہے، یہ میرا منکر اور ستارے پر ایمان لانے والا ہے۔

 حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں :

                   "اہلِ مسلکِ ثانی نے یہ کہا کہ عدوی کی نفی سے مطلقاً نفی کرنا مقصود نہیں؛ کیوں کہ اس  کا مشاہدہ ہے ۔۔۔ مگر اہلِ مسلکِ ثانی نے اس کو خلافِ ظاہر سمجھ کر یہ کہا کہ مطلق عدوی کی نفی اس سے مقصود نہیں بلکہ اس عدوی کی نفی مقصود ہے جس کے قائل اہلِ جاہلیت تھے اور جس کےمعتقدینِ سائنس اب بھی قائل ہیں، یعنی بعض امراض میں خاصیت طبعی لازم ہے  کہ ضرور متعدی ہوتے ہیں،  تخلف کبھی ہوتا ہی نہیں، سو اس کی نفی فرمائی گئی ہے  ۔۔۔الخ" (امداد الفتاوی، ج۴ / ص ۲۸۷)

اس حوالے سے مزید کچھ تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر جامعہ کا فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

بیماری کا وائرس پھیلنا

(2) کورونا وائرس سے حفاظتی تدبیر کے طور پر صحت مند افراد کا اَز خود نمازِ جمعہ یا جماعات میں شریک نہ ہونے کا شرعی حکم:

                             جو افراد صحت مند ہیں اور یقینی طور پر کرونا وائرس کا شکار نہیں ہیں، یا صرف کسی مریض کے بارے میں وائرس لگنے کا محض گمان ہو، ایسے افراد کے لیے جمعہ اور جماعات میں حاضری ضروری ہے، موہوم اندیشے کے پیشِ نظر صحت مند کے لیے جماعت چھوڑنا جائز نہیں ہے، چہ جائے کہ جمعہ ترک کیا جائے، جس خوف کی وجہ سے جماعت چھوڑنے کی اجازت ہے شریعت میں ایسے تمام مواقع کے اَحکام اور تفصیلات موجود ہیں، ان میں یہ صورت داخل نہیں ہے، بلکہ شرح صحیح مسلم کے حوالے کی روشنی میں علامہ نووی رحمہ اللہ اور قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ کی تحقیق و فتویٰ یہ ہے کہ جذامی (یعنی ایسے مرض میں مبتلا شخص جس کا مرض اسباب کے تحت اللہ تعالیٰ کی قدرت سے متعدی ہوتاہو) کو  بھی جمعہ کی نماز سے نہیں روکا جائے گا، البتہ دیگر نمازوں کی جماعت سے روکا جائے گا، لہٰذا صحت مند شخص یا موہوم اندیشے کی بنیاد پر اس مرض کے علاوہ کسی دوسرے مریض کو  جمعہ اور جماعت  سے روکنا قطعاً جائز نہیں ہوگا۔

                    اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ  شرعی اَحکام میں وہ خوف معتبر ہوتا ہے جو ظنِ غالب کا فائدہ دے،  مثلاً کسی مرگی کے مریض کو تجربہ سے یہ بات معلوم ہو کہ روزہ رکھنے سے اسے مرگی کے دورے پڑتے ہیں تو اب اس کے لیے مرگی کے دورے پڑنے کے خوف سے روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہوگی۔ عام طور پر ایسا خوف کسی علامت سے، تجربے سے، یا ماہر مسلمان دِین دار طبیب کے قول سے معلوم ہوتا ہے۔ باقی جو خوف کسی علامت، تجربہ یا ماہر دِین دار طبیب کے قول کے بغیر ہی دل میں پیدا ہو  یا کسی غیر مسلم کے کہنے سے پیدا ہو جس کی تصدیق مسلمان دین دار ڈاکٹر نہ کریں تو اس اندیشے کا شرعاً اعتبار نہیں ہے، بلکہ وہ  خوف توہم پرستی اور بد شگونی کے اعتقاد میں مبتلا کردیتا ہے، جس کی شریعت میں سخت ممانعت ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 422):

"(قوله: بغلبة الظن) تنازعه خاف الذي في المتن وخاف وخافت اللتان في الشرح ط (قوله: بأمارة) أي علامة (قوله: أو تجربة) ولو كانت من غير المريض عند اتحاد المرض ط عن أبي السعود (قوله: حاذق) أي له معرفة تامة في الطب، فلايجوز تقليد من له أدنى معرفة فيه ط (قوله: مسلم) أما الكافر فلايعتمد على قوله: لاحتمال أن غرضه إفساد العبادة كمسلم شرع في الصلاة بالتيمم فوعده بإعطاء الماء فإنه لا يقطع الصلاة لما قلنا بحر (قوله مستور) وقيل عدالته شرط وجزم به الزيلعي وظاهر ما في البحر والنهر ضعفه ط. قلت: وإذا أخذ بقول طبيب ليس فيه هذه الشروط وأفطر فالظاهر لزوم الكفارة كما لو أفطر بدون أمارة ولا تجربة لعدم غلبة الظن والناس عنه غافلون".

شرح معاني الآثار (4 / 310):

"فلما كان النهي عن الخروج عن الطاعون، وعن الهبوط عليه بمعنى واحد، وهو الطيرة، لا الإعداء، كان كذلك قوله: لايورد ممرض على مصح هو الطيرة أيضًا، لا الإعداء. فنهاهم رسول الله صلى الله عليه وسلم في هذه كلها، عن الأسباب التي من أجلها يتطيرون".

                            رہا یہ اشکال کہ ماہر اطباء کے بقول کرونا وائرس میں مبتلا شخص پر اس بیماری کے آثار کچھ دنوں بعد ظاہر ہوتے ہیں؛ لہذا جو شخص ظاہری طور پر صحیح ہے اس سے بھی میل ملاپ کرنا، مصافحہ کرنا وغیرہ سے احتیاط کیا جائے؛ کیوں کہ وہ بھی کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کا ایک گونہ احتمال رکھتا ہے۔

                            تو اس کاجواب سمجھنے سے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ اطباء کا قول صرف مکلف کی کیفیت کی تعیین کے لیے حجت ہے، نہ کہ فقہی اَحکام کی تبدیلی کے لیے حجت ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ شریعت نے اس مریض کے لیے تیمم کی رخصت دی ہے جس کے لیے پانی مضر ہو۔ کسی مکلف کے لیے پانی مضر ہوگا یا نہیں؟  ان دو پہلؤوں میں سے ایک کی تعیین کے لیے تو اطباء کا قول معتبر ہے کہ اگر کسی طبیب حاذق نے کہہ دیا کہ پانی کا استعمال اس کے لیے مضر ہے تو اس کے لیے تیمم جائز ہوجائے گا، لیکن کسی مکلف کے بارے میں طبیب تعیین نہ کرے، بلکہ صرف یہ کہہ دے کہ پانی کا استعمال اس کے لیے مضر ہونے کا غیر یقنی احتمال ہے؛ لہذا یہ تیمم کرلے تو طبیب کے اس قول کی وجہ سے فقہی حکم تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

                            مذکورہ بالا تفصیل کے بعد اشکال کا جواب یہ ہے کہ اگر کرونا وائرس کی واضح علامات کے ذریعے یا کسی معتبر ٹیسٹ کے ذریعے کسی کا اس وائرس میں مبتلا ہوجانا معلوم ہو تو ایسے شخص سے احتیاطی تدبیر کے طور پر دور رہنا تو جائز ہے، لیکن اگر کسی علامت، تجربہ یا ماہر دِین دار طبیب کے قول سے اس کا بیماری میں مبتلا ہونے کی جہت متعین نہ ہو تو  اطباء کے قول کو لے کر اس سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا توہم پرستی شمار ہوگا، نہ کہ احتیاطی تدبیر ؛ کیوں کہ فقہی نکتۂ نظر سے ظاہری صحت مند آدمی کا صحت مند ہونا یقینی ہے، اور وہم یا شک سے یقین زائل نہیں ہوتا۔

المبسوط للسرخسي (3 / 213):

"وهذا من باب الطب ليس من الفقه في شيء فلم نقل به لهذا".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5 / 147):

"والثابت باليقين لايزول بالشك".

(3) وائرس سے بچاؤ اور حفاظتی نقطۂ نگاہ سے جمعہ و جماعات کے لیے مساجد کو بند کردینے یا اس کا انتظام ترک کردینے کا شرعی حکم:

                                 کسی بھی آفت، خوف اور حملے کے وقت مساجد کو بالکلیہ بند کرنے اور جمعات و جماعات کا انتظام ترک کردینے کی شرعاً اجازت نہیں ہے، میدانِ جنگ میں دشمن کے حملے کا خطرہ ہو تو بھی شریعت نے صلاۃ الخوف کی صورت میں جماعت کے اہتمام کی ترغیب دی ہے، اور روئے زمین پر موجود جگہوں میں اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے پسندیدہ جگہیں مساجد ہیں، یہ اللہ کے گھر ہیں، اللہ کی رحمت و برکات کے نزول کا موقع و مظہر ہیں، مصائب و آفات میں امت کو چاہیے کہ وہ نماز اور دعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے اور اللہ کی طرف رجوع ہو، اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود قرآنِ مجید میں مختلف جگہوں پر پریشانیوں سے نجات کا حل رجوع الی اللہ، استغفار اور بعض جگہ نماز کو  قرار دیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ} [البقرة: 153]

ترجمہ:  اے ایمان والو! صبر  اور  نماز سے سہارا حاصل کرو ، بلاشبہ حق تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ( اور نماز پڑھنے والوں کے ساتھ تو بدرجہٴ اولیٰ) ۔ (ترجمہ و فائدہ از بیان القرآن)
{وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ } [البقرة:155- 157]

ترجمہ: اور (دیکھو) ہم تمہارا امتحان کریں گے کسی قدر خوف سے اور فاقہ سے اور مال اور جان اور پھلوں کی کمی سے اور آپ ایسے صابرین کو بشارت سنادیجیے ۔(جن کی یہ عادت ہے) کہ ان پر جب کوئی مصیبت پڑتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو (مع مال واولاد حقیقتہ) اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہیں اور ہم سب (دنیا سے) اللہ تعالیٰ ہی کے پاس جانے والے ہیں۔ ان لوگوں پر (جدا جدا) خاص خاص رحمتیں بھی ان کے پروردگار کی طرف سے ہوں گی اور (سب پر بلاشتراک) عام رحمت بھی ہوگی اور یہی لوگ ہیں جن کی (حقیقت حال) تک رسائی ہوگئی۔

ف 5:  یہ خطاب ساری امت کو ہے توسب کو سمجھ لینا چاہیے کہ دنیادار المحن ہے یہاں کے حوادث کو عجیب اور بعید نہ سمجھنا چاہیے۔ (ترجمہ مع فائدہ از بیان القرآن)
اور رسول اللہ ﷺ کا معمول حدیث شریف میں یہ بیان کیا گیا ہے:

سنن أبي داؤد، کتاب الصلاة، باب وقت قیام النبي ﷺ، (1/195) ط: رحمانیه، لاهور:

’’عن حذیفة قال: کان النبي صلی الله علیه وسلم إذا حزبه أمر صلی‘‘.

ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو جب بھی کسی معاملے میں پریشانی ہوتی آپ ﷺ نماز پڑھتے تھے۔

                     مذکورہ بالا آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم تمہیں خوف (کسی بھی قسم کا ہو)، بھوک، اموال کی کمی (معاشی نقصانات)، انسانی جانوں کی کمی (ہلاکت کی صورت میں ہو یا اَمراض کی صورت میں) اور پھلوں کی کمی (قدرتی ہوں یا مصنوعات) سے آزمائیں گے، اس موقع پر مسلمان کی شان سوائے صبر اور تفویض اور رجوع الی اللہ اور نماز پڑھ کر اللہ سے مدد مانگنے کے اور کچھ نہیں ہے۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ غمی و خوشی، تکلیف و راحت، بیماری و صحت، تنگ دستی و فراوانی ہر حال میں متواتر توبہ و استغفار اور رجوع الی اللہ میں مشغول رہیں، صحیح مسلم میں حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مؤمن کی بھی عجیب شان و حالت ہے، اس کے لیے ہر معاملہ سراپا خیر ہے، اور یہ خصوصیت سوائے مؤمن کے کسی کو حاصل نہیں ہے، (وہ خصوصیت یہ ہے کہ) اگر اسے خوشی کی حالت پہنچے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتاہے تو یہ اس کے لیے خیر کا باعث ہوتاہے، اور اگر اسے تکلیف کی حالت پہنچے تو صبر کرتاہے، یہ بھی اس کے لیے خیر کا سبب ہوتاہے۔ (رواہ مسلم)

                            احادیثِ مبارکہ میں ہر مصیبت کے حل کے لیے صلاۃ الحاجۃ کا ذکر موجود ہے، درج ذیل لنک میں اس کی تفصیل اور طریقہ ملاحظہ کیجیے:

صلاۃ الحاجۃ کا طریقہ بتادیں

جمعات اور جماعات کے لیے مساجد کی بالکلیہ بندش کے جواز  پر ایک استدلال اور اس کا جواب:

                       بعض حضرات اس موقع پر رسول اللہ ﷺ کی صحیح حدیث سے استدلال کرسکتے ہیں کہ سخت سردی اور بارش کے موقع پر رات کی نمازوں میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے گھروں میں نماز ادا کرنے کی رخصت دی جاتی تھی، جیساکہ صحیح مسلم اور صحیح بخاری دونوں میں یہ روایات موجود ہیں تو  معلوم ہواکہ مساجد میں نمازوں کے لیے آنے سے روکنا جائز ہوا۔

ذیل میں  صحیح مسلم کی روایات کے الفاظ درج کیے جاتے ہیں:

الصحیح لمسلم، کتاب صلاة المسافرین و قصرها، باب الصلاة في الرحال في المطر، (1/243،244) ط: قدیمي، کراچي:

"حدثنا يحيى بن يحيى، قال: قرأت على مالك، عن نافع، أن ابن عمر، أذن بالصلاة في ليلة ذات برد وريح، فقال: «ألا صلوا في الرحال»، ثم قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يأمر المؤذن إذا كانت ليلة باردة ذات مطر، يقول: «ألا صلوا في الرحال».

23 - (697) حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا أبي، حدثنا عبيد الله، حدثني نافع، عن ابن عمر، أنه نادى بالصلاة في ليلة ذات برد وريح ومطر، فقال في آخر ندائه: ألا صلوا في رحالكم، ألا صلوا في الرحال، ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يأمر المؤذن، إذا كانت ليلة باردة، أو ذات مطر في السفر، أن يقول: «ألا صلوا في رحالكم».

24 - (697) وحدثناه أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو أسامة، حدثنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، أنه نادى بالصلاة بضجنان، ثم ذكر بمثله، وقال: ألا صلوا في رحالكم، ولم يعد ثانية ألا صلوا في الرحال من قول ابن عمر.

25 - (698) حدثنا يحيى بن يحيى، أخبرنا أبو خيثمة، عن أبي الزبير، عن جابر، ح وحدثنا أحمد بن يونس، قال: حدثنا زهير، حدثنا أبو الزبير، عن جابر، قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فمطرنا، فقال: «ليصل من شاء منكم في رحله».

26 - (699) وحدثني علي بن حجر السعدي، حدثنا إسماعيل، عن عبد الحميد، صاحب الزيادي، عن عبد الله بن الحارث، عن عبد الله بن عباس، أنه قال لمؤذنه في يوم مطير: " إذا قلت: أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمدا رسول الله، فلا تقل: حي على الصلاة، قل: صلوا في بيوتكم "، قال: فكأن الناس استنكروا ذاك، فقال: «أتعجبون من ذا، قد فعل ذا من هو خير مني، إن الجمعة عزمة، وإني كرهت أن أحرجكم فتمشوا في الطين والدحض».

27 - (699) وحدثنيه أبو كامل الجحدري، حدثنا حماد يعني ابن زيد، عن عبد الحميد، قال: سمعت عبد الله بن الحارث، قال: خطبنا عبد الله بن عباس في يوم ذي ردغ، وساق الحديث بمعنى حديث ابن علية، ولم يذكر الجمعة، وقال: قد فعله من هو خير مني - يعني النبي صلى الله عليه وسلم - وقال أبو كامل: حدثنا حماد، عن عاصم، عن عبد الله بن الحارث بنحوه.

(699) وحدثنيه أبو الربيع العتكي هو الزهراني، حدثنا حماد يعني ابن زيد، حدثنا أيوب، وعاصم الأحول بهذا الإسناد، ولم يذكر في حديثه يعني النبي صلى الله عليه وسلم.

28 - (699) وحدثني إسحاق بن منصور، أخبرنا ابن شميل، أخبرنا شعبة، حدثنا عبد الحميد صاحب الزيادي، قال: سمعت عبد الله بن الحارث، قال: أذن مؤذن ابن عباس يوم جمعة في يوم مطير، فذكر نحو حديث ابن علية، وقال: وكرهت أن تمشوا في الدحض والزلل.

29 - (699) وحدثناه عبد بن حميد، حدثنا سعيد بن عامر، عن شعبة، ح وحدثنا عبد بن حميد، أخبرنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، كلاهما عن عاصم الأحول، عن عبد الله بن الحارث، أن ابن عباس أمر مؤذنه في حديث معمر في يوم جمعة، في يوم مطير بنحو حديثهم، وذكر في حديث معمر فعله من هو خير مني - يعني النبي صلى الله عليه وسلم -.

30 - (699) وحدثناه عبد بن حميد، حدثنا أحمد بن إسحاق الحضرمي، حدثنا وهيب، حدثنا أيوب، عن عبد الله بن الحارث، قال وهيب لم يسمعه منه، قال: أمر ابن عباس مؤذنه في يوم جمعة، في يوم مطير بنحو حديثهم".

                                     لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسی حدیث کے الفاظ سے استدلال کا جواب اور تمام احوال کی تطبیق ہوجاتی ہے، یعنی اگر واقعی معتبر عذر موجود ہو تو جماعت  اور جمعہ چھوڑنے کی اجازت ہوگی، (جیسا کہ سابقہ سطور میں مختلف صورتیں بیان کردی گئی ہیں) جہاں تک مساجد بند کرنے یا وہاں نمازیوں کو آنے سے روکنے کی بات ہے، تو اس حدیث میں نہ صرف یہ کہ اس کا ذکر نہیں ہے، بلکہ عملی طور پر اس کے خلاف ثابت ہے، اور اسی حدیث کے بعض طرق میں ایسے الفاظ موجود ہیں جن میں وضاحت ہے کہ جو چاہے نہ آئے، یعنی جماعت ترک کرنا لازم نہیں قرار دیا گیا، چناں چہ  رسول اللہ ﷺ کے دور میں بھی اس کے لیے مساجد بند نہیں کی گئیں، نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ادوار میں اور نہ ہی اس کے بعد کسی دور میں، اور نہ ہی ان احوال میں جماعت سے نماز موقوف کی گئی،  (قدرتی آفات، زلزلوں، سیلاب، فساد وبلوی یا وبائی امراض سے اتنی ہلاکتیں ہوجائیں کہ پوری بستی ہی ویران ہوجائے یہ صورتیں مستثنیٰ ہیں، اللہ سبحانہ وتعالیٰ پوری امت کو ایسی بلاؤں سے محفوظ رکھے۔) بلکہ اس اعلان کا مقصد یہ تھا کہ گھر میں کوئی نماز پڑھنا چاہے تو اس کے لیے سختی نہیں ہوگی،  تاہم جو آنا چاہے ان لوگوں کی اطلاع اور بلاوے کے لیے اذان دی جارہی ہے۔  چناں چہ ان اَدوار میں بھی مساجد آباد رہیں اور اس اعلان کے بعد بھی جو لوگ مسجد کے قرب و جوار میں ہوتے وہ نماز باجماعت میں شریک ہوجاتے۔
                                    رسول اللہ ﷺ کے اس عمل کی روشنی میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک مرتبہ جمعہ کی نماز کے وقت بارش کے موقع پر اپنے مؤذن سے جب یہ اعلان کروایا تو لوگوں کو تعجب ہوا، گویا انہوں نے اسے پسند نہیں کیا، اس پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے وضاحت فرمائی کہ مجھے معلوم ہے کہ جمعہ لازم اور بہت اہمیت کا حامل ہے، اور تم لوگ جمعے کی اس اہمیت کے پیشِ نظر تیز بارش میں بھی اس مشقت کے باوجو د جمعے میں حاضر ہونا واجب سمجھوگے، جب کہ شریعت میں اتنی سختی نہیں ہے، چناں چہ مجھ سے افضل یعنی رسول اللہ ﷺ نے بھی سردی کی راتوں میں بارش کے موقع پر یہ اعلان کروایا ہے،  اور یہی رخصت بتانے کے لیے میں نے اعلان کروایا ہے؛ تاکہ تم لوگ کیچڑ میں پھسل نہ جاؤ اور سخت بارش کے موقع پر تکلیف اٹھا کر جماعت میں آنا لازم نہ سمجھو۔

                                  امام نووی رحمہ اللہ اس کے تحت لکھتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ ایسے شدید اَعذار کی صورت میں جمعے کا وجوب ساقط ہوجائے گا، جیساکہ شافعیہ کی رائے ہے اور امام مالک رحمہ اللہ سے اس کے علاوہ قول منقول ہے۔

                              یعنی اگر کوئی شخص اس حالت میں جمعے میں نہ آئے تو وہ ان وعیدوں کا مستحق نہیں ہوگا جو جمعہ ترک کرنے کے حوالے سے وارد ہوئی ہیں، اسی طرح جماعات کا بھی حکم ہوگا، نہ یہ کہ مساجد سے جماعت اور جمعے کا اہتمام ہی موقوف کردیا جائے گا، جیساکہ ذیل کی عبارت سے واضح ہے:

شرح النووي على الصحیح لمسلم، کتاب صلاة المسافرین و قصرها، باب الصلاة في الرحال في المطر، (1/243،244) ط: قدیمي، کراچي:

"[ 697 ] قوله: "أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يأمر المؤذن إذا كانت ليلة باردة أو ذات مطر في السفر أن يقول: ألا صلوا في رحالكم، [ 698 ] وفي رواية: "ليصل من شاء منكم في رحله"، وفي حديث بن عباس رضي الله عنهما: أنه قال لمؤذن في يوم مطير: إذا قلت أشهد أن محمدًا رسول الله فلا تقل حي على الصلاة قل: صلوا في بيوتكم، قال: فكأن الناس استنكروا ذلك، فقال: أتعجبون من ذا؟ فقد فعل هذا من هو خير مني، أن الجمعة عزمة، وإني كرهت أن أحرجكم؛ فتمشوا في الطين والدحض، وفي رواية: فعله من هو خير مني يعني رسول الله صلى الله عليه و سلم، هذا الحديث دليل على تخفيف أمر الجماعة في المطر ونحوه من الاعذار، وأنها متأكدة إذا لم يكن عذر، وأنها مشروعة لمن تكلف الإتيان إليها، وتحمل المشقة؛ لقوله في الرواية الثانية: ليصل من شاء في رحله، وأنها مشروعة في السفر، وأن الأذان مشروع في السفر، وفي حديث ابن عباس رضي الله عنه: أن يقول: ألا صلوا في رحالكم في نفس الأذان، وفي حديث بن عمر أنه قال في آخر ندائه، والأمران جائزان نص عليهما الشافعي رحمه الله تعالى في الأم في كتاب الأذان، وتابعه جمهور أصحابنا في ذلك، فيجوز بعد الأذان وفي أثنائه؛ لثبوت السنة فيهما، لكن قوله بعده أحسن؛ ليبقى نظم الأذان على وضعه، ومن أصحابنا من قال: لايقوله إلا بعد الفراغ، وهذا ضعيف مخالف لصريح حديث ابن عباس رضي الله عنهما، ولا منافاة بينه وبين الحديث الأول حديث ابن عمر رضي الله عنهما؛ لأن هذا جرى في وقت، وذلك في وقت، وكلاهما صحيح، ...  قوله: إن الجمعة عزمة، بإسكان الزاي أي واجبة متحتمة، فلو قال المؤذن: حي على الصلاة؛ لكلفتم المجيء إليها ولحقتكم المشقة، قوله: كرهت أن أحرجكم، هو بالحاء المهملة من الحرج وهو المشقة، هكذا ضبطناه، وكذا نقله القاضي عياض عن رواياتهم، قوله: في الطين والدحض بإسكان الحاء المهملة وبعدها ضاد معجمة، وفي الرواية الأخيرة: الدحض والزلل هكذا هو باللامين والدحض والزلل والزلق والردغ بفتح الراء واسكان الدال المهملة وبالغين المعجمة كله بمعنى واحد، ... وفي هذا الحديث دليل على سقوط الجمعة بعذر المطر ونحوه، وهو مذهبنا ومذهب آخرين، وعن مالك رحمه الله تعالى خلافه، والله تعالى أعلم بالصواب".

                                اس حدیث کا صحیح مصداق سمجھنے کے لیے پس منظر سمجھنا ضروری ہے، وہ یہ کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے نماز باجماعت کی اس قدر ترغیب و تاکید تھی کہ اس دور میں جماعت ترک کرنا نفاق کی علامت سمجھا جاتا تھا، اور آپ ﷺ نے بلاعذر جماعت ترک کرنے والوں کے گھر مع ان کے اہل وعیال و ساز و سامان جلانے کا ارادہ ظاہر فرمایا، نیز آپ ﷺ نے نابینا شخص کو بھی جماعت سے رخصت نہیں دی، جیساکہ ذیل کی روایات سے جماعت کی اہمیت بخوبی واضح ہوجاتی ہے، ان ہی روایات کی روشنی میں بعض ائمہ کی رائے یہ ہے کہ جماعت سے نماز ادا کرنا فرض کا درجہ رکھتاہے، اور بلاعذر جماعت کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی، اب اگر رسول اللہ ﷺ کی طرف سے سخت سردی کی راتوں میں اندھیرے اور تیز بارش کے باوجود جماعت سے رکنے کی اجازت نہ دی جاتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسجدِ نبوی میں نماز کے لیے ضرور حاضر ہوتے، خواہ انہیں کتنی ہی مشقت اٹھانی پڑتی، جب کہ رسول اللہ ﷺ تو  آسان اور نرم شریعت لے کر تشریف لائے ہیں، اور دین میں حرج اور تنگی بالکل بھی نہیں ہے، لہٰذا آپ ﷺ نے مؤذن سے صراحتاً اعلان کروادیا؛ تاکہ جو مسلمان اس عذر کی وجہ سے گھر میں نماز پڑھنا چاہے، کہیں لوگ اسے منافق یا دین میں سستی کرنے والا نہ سمجھیں، نہ یہ کہ ان اعذار  کی وجہ سے مسجد میں بالکلیہ جماعت ختم کرنے کا اعلان تھا؛  لہٰذا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانےکا موجودہ ایمانی و عملی انحطاط کے زمانے سے موازنہ کرنا نا انصافی ہوگا۔

جماعت کی فضیلت و اہمیت سے متعلقہ احادیثِ مبارکہ:

مشکاة المصابیح، کتاب الصلاة، بَاب الْجَمَاعَة وفضلها، (ص:95-97) ط: قدیمي کراچي:

"الْفَصْل الأول:

1053 -[2] (صَحِيحٌ)
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَيُحْطَبَ ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلَاةِ فَيُؤَذَّنَ لَهَا ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَيَؤُمَّ النَّاسَ ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَى رِجَالٍ. وَفِي رِوَايَةٍ: لَا يَشْهَدُونَ الصَّلَاةَ فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ يَعْلَمُ أَحَدُهُمْ أَنَّهُ يَجِدُ عَرْقًا سَمِينًا أَوْ مِرْمَاتَيْنِ حَسَنَتَيْنِ لَشَهِدَ الْعِشَاءَ ". رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَلمُسلم نَحوه.

1054 -[3] (صَحِيح)
وَعَنْهُ قَالَ: أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ أَعْمَى فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ لَيْسَ لِي قَائِدٌ يَقُودُنِي إِلَى الْمَسْجِدِ فَسَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرَخِّصَ لَهُ فَيُصَلِّيَ فِي [ص:333] بَيْتِهِ فَرَخَّصَ لَهُ فَلَمَّا وَلَّى دَعَاهُ فَقَالَ: «هَلْ تَسْمَعُ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ؟» قَالَ: نَعَمْ قَالَ: «فَأَجِبْ» . رَوَاهُ مُسلم.

الْفَصْل الثَّانِي:

1066 -[15] (حسن)
وَعَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا الصُّبْحَ فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ: «أَشَاهِدٌ فُلَانٌ؟» قَالُوا: لَا. قَالَ: «أَشَاهِدٌ فُلَانٌ؟» قَالُوا: لَا. قَالَ: «إِنَّ هَاتَيْنِ الصَّلَاتَيْنِ أَثْقَلُ الصَّلَوَاتِ عَلَى الْمُنَافِقِينَ وَلَو تعلمُونَ مَا فيهمَا لأتيتموهما وَلَوْ حَبْوًا عَلَى الرُّكَبِ وَإِنَّ الصَّفَّ الْأَوَّلَ عَلَى مِثْلِ صَفِّ الْمَلَائِكَةِ وَلَوْ عَلِمْتُمْ مَا فضيلته لابتدرتموه وَإِن صَلَاة الرجل من الرَّجُلِ أَزْكَى مِنْ صَلَاتِهِ وَحْدَهُ وَصَلَاتَهُ مَعَ الرَّجُلَيْنِ أَزْكَى مِنْ صَلَاتِهِ مَعَ الرَّجُلِ وَمَا كَثُرَ فَهُوَ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ.

1067 -[16] (حسن)
وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ ثَلَاثَةٍ فِي قَرْيَةٍ وَلَا بَدْوٍ لَا تُقَامُ فِيهِمُ الصَّلَاةُ إِلَّا قَدِ اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَعَلَيْكَ بِالْجَمَاعَةِ فَإِنَّمَا يَأْكُلُ الذِّئْبُ الْقَاصِيَةَ». رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ.

الْفَصْل الثَّالِث:

1072 -[21] (صَحِيح)
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُنَا وَمَا يَتَخَلَّفُ عَنِ الصَّلَاةِ إِلَّا مُنَافِقٌ قَدْ عُلِمَ نِفَاقُهُ أَوْ مَرِيضٌ إِنْ كَانَ الْمَرِيضُ لَيَمْشِي بَيْنَ رَجُلَيْنِ حَتَّى يَأْتِيَ الصَّلَاةَ [ص:337] وَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَنَا سُنَنَ الْهُدَى وَإِنَّ مِنْ سُنَنِ الْهُدَى الصَّلَاةُ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي يُؤَذَّنُ فِيهِ.
وَفِي رِوَايَة: " مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَلْقَى اللَّهَ غَدًا مُسْلِمًا فليحافظ على هَؤُلَاءِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ حَيْثُ يُنَادَى بِهِنَّ فَإِنَّ اللَّهَ شرع لنبيكم صلى الله عَلَيْهِ وَسلم سُنَنَ الْهُدَى وَإِنَّهُنَّ مِنْ سُنَنِ الْهُدَى وَلَوْ أَنَّكُمْ صَلَّيْتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ كَمَا يُصَلِّي هَذَا الْمُتَخَلِّفُ فِي بَيْتِهِ لَتَرَكْتُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ وَلَوْ تَرَكْتُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ لَضَلَلْتُمْ وَمَا مِنْ رَجُلٍ يَتَطَهَّرُ فَيُحْسِنُ الطُّهُورَ ثُمَّ يَعْمِدُ إِلَى مَسْجِدٍ مِنْ هَذِهِ الْمَسَاجِدِ إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ يَخْطُوهَا حَسَنَةً وَرَفَعَهُ بِهَا دَرَجَةً ويحط عَنْهُ بِهَا سَيِّئَةً وَلَقَدْ رَأَيْتُنَا وَمَا يَتَخَلَّفُ عَنْهَا إِلَّا مُنَافِقٌ مَعْلُومُ النِّفَاقِ وَلَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ يُؤْتَى بِهِ يُهَادَى بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ حَتَّى يُقَام فِي الصَّفّ. رَوَاهُ مُسلم.

1073 -[22] (ضَعِيفٌ)
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَوْلَا مَا فِي الْبُيُوتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالذُّرِّيَّةِ أَقَمْتُ صَلَاةَ الْعِشَاءِ وَأَمَرْتُ فِتْيَانِي يُحْرِقُونَ مَا فِي الْبُيُوتِ بِالنَّارِ» . رَوَاهُ أَحْمد.

1077 -[26] (صَحِيح)
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ يُجِبْهُ فَلَا صَلَاةَ لَهُ إِلَّا مِنْ عُذْرٍ» . رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيّ.

1078 -[27] (صَحِيح)
وَعَن عبد الله بن أم مَكْتُوم قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الْمَدِينَةَ كَثِيرَةُ الْهَوَامِّ وَالسِّبَاعِ وَأَنَا ضَرِيرُ الْبَصَرِ فَهَلْ تَجِدُ لِي مِنْ رُخْصَةٍ؟ قَالَ: «هَلْ تَسْمَعُ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ؟» قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: «فَحَيَّهَلَا» . وَلَمْ يُرَخِّصْ لَهُ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ.

1079 -[28] (صَحِيح)
وَعَن أم الدَّرْدَاء قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ أَبُو الدَّرْدَاءِ وَهُوَ مُغْضَبٌ فَقُلْتُ: مَا أَغْضَبَكَ؟ قَالَ: وَاللَّهِ مَا أَعْرِفُ مِنْ أَمْرِ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا إِلَّا أَنَّهُمْ يُصَلُّونَ جَمِيعًا. رَوَاهُ البُخَارِيّ.

خلاصۂ حکم، نمازِ جمعہ اور نماز باجماعت کے لیے مساجد بالکلیہ بند کردینا جائز نہیں ہے:

                              صحابۂ  کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں اور بعد کے اَدوار میں بھی طاعون وغیرہ کی وبائیں پھیلی ہیں، جن کی ہلاکت خیزی تاریخ کے قاری پر مخفی نہیں ہے، لیکن سلفِ صالحین نے سخت ہلاکت کے مواقع پر بھی مساجد کی بندش اور جمعات بالکلیہ ترک کرنے کے فتاویٰ اور اَحکام صادر نہیں فرمائے، بلکہ ان کے اَدوار میں مساجد کی طرف رجوع مزید بڑھ گیا، جیساکہ  قاضی عبد الرحمن القرشی الدمشقی الشافعی اپنے زمانہ میں 764 ھ کے طاعون سے متعلق لکھتے ہیں:

                      ’’جب طاعون پھیل گیا اور لوگوں کو ختم کرنے لگا، تو لوگوں نے تہجد، روزے، صدقہ اور توبہ واستغفار کی کثرت شروع کردی اور ہم مردوں،  بچوں، اور عورتوں نے گھروں کو چھوڑدیا ہے اور مسجدوں کو لازم پکڑ لیا، تو اس سے ہمیں بہت فائدہ ہوا‘‘۔

قال قاضي صفد محمد القرشي (ت: بعد ٧٨٠هـ) في (شفاء القلب المحزون في بيان ما يتعلق بالطاعون/مخطوط) ‏متحدثًا عن الطاعون سنة ٧٦٤هـ:

  ‏«وكان هذا كالطاعون الأول عمّ البلاد وأفنى العباد، و كان الناس به على خير عظيم: ‏مِن إحياء  الليل، وصوم النهار، والصدقة، والتوبة .... ‏فهجرنا البيوت؛ ولزمنا المساجد، ‏رجالنا وأطفالنا ونساءنا؛ ‏فكان الناس به على خير".

حیاۃ الصحابۃ میں ہے :

                            ’’حضرت سعید بن مسیب  رحمہ اللہ کہتے ہیں:  جب حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اُردن میں طاعون میں مبتلا ہوئے تو جتنے مسلمان وہاں تھے ان کو بلا کر ان سے فرمایا:
میں تمہیں ایک وصیت کررہا ہوں اگر تم نے اسے مان لیا تو ہمیشہ خیر پر رہو گے اور وہ یہ ہے کہ نماز قائم کرو، ماہِ رمضان کے روزے رکھو، زکاۃ ادا کرو، حج وعمرہ کرو، آپس میں ایک دوسرے کو (نیکی کی) تاکید کرتے رہو اور اپنے امیروں کے ساتھ خیرخواہی کرو اور ان کو دھوکا مت دو اور دنیا تمہیں (آخرت سے) غافل نہ کرنے پائے؛ کیوں کہ اگر انسان کی عمر ہزار سال بھی ہوجائے تو بھی اسے (ایک نہ ایک دن) اس ٹھکانے یعنی موت کی طرف آنا پڑے گا جسے تم دیکھ رہے ہو۔
                                    اللہ تعالیٰ نے تمام بنی آدم کے لیے مرناطے کر دیا ہے، لہٰذا وہ سب ضرور مریں گے اور بنی آدم میں سب سے زیادہ سمجھ دار وہ ہے جو اپنے ربّ کی سب سے زیادہ اطاعت کرے اور اپنی آخرت کے لیے سب سے زیادہ عمل کرے۔ (2/165، ط: مکتبۃ الحسن)

                                    تاہم قرآنِ مجید، احادیثِ مبارکہ اور محدثینِ کرام اور فقہاءِ کرام کی عبارات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر کسی علاقے میں واقعتاً کوئی وبا (کرونا وائرس وغیرہ) عام ہوجائے تو  اس علاقے میں موجودہ مریضوں کو  جماعت میں شریک نہیں ہونا چاہیے، (جمعہ اور عام نمازوں کا فرق اور انہیں روکنے کے حوالے سے تفصیل نمبر ایک کے تحت گزر چکی ہے) اور (حقیقتاً مرض پائے جانے کی صورت میں) دیگر اہلِ محلہ (جو اس وبائی مرض میں مبتلا نہ ہوں) کے لیے مساجد میں نماز نہ پڑھنے  کی رخصت تو ہوگی، البتہ اس محلے کے چند لوگوں کو مسجد میں باجماعت نمازوں کا اہتمام کرنا ضروری ہوگا  اور اگر مسجد میں باجماعت نماز پورے محلے والوں نے ترک کردی تو پورا محلہ گناہ گار ہوگا؛ کیوں کہ مسجد کو اس کے اعمال سے آباد رکھنا فرضِ کفایہ ہے۔

                                  نیز  جو لوگ مسجد کی جماعت میں شریک نہ ہوں انہیں بھی چاہیے کہ وہ جماعت ترک نہ کریں، بلکہ پنج وقتہ فرض نمازیں گھروں یا دفاتر میں موجود افراد کی جماعت کے ساتھ ادا کریں؛ تاکہ حتی الامکان جماعت کا اجر و ثواب حاصل ہوجائے۔

                                   اور جس علاقے میں کرونا وائرس کی وبا عام نہ ہو تو  کرونا وائرس کے ڈر سے جماعت کی نماز ترک کردینا شرعی عذر نہیں ہے، بلکہ توہم پرستی ہے جو کہ ممنوع ہے۔ 

                             مذکورہ بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ انتظامیہ یا اہلِ محلہ کا مسجد میں جماعت سے نماز  پڑھنے پر پابندی لگانا جائز نہیں ہے، جمعہ اور پنج وقتہ نمازوں کے علاوہ اوقات میں مساجد بند کرنے کی اجازت ہے۔ مساجد کو بالکلیہ معطل کرنے اور ان میں نمازوں اور ذکر پر پابندی لگانے کے حوالے سے نصوص میں سخت وعید وارد  ہوئی ہے اور ان کے اس عمل کو "ظلم" قرار دیا گیا ہے۔

﴿وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْهَا اسْمُهُ وَ سَعٰی فِیْ خَرَابِها ؕ اُولئك مَا کَانَ لَهُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْهَاۤ اِلَّا خَآئِفِیْنَ ۬ؕ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾  [البقرة:۱۱۴]

ترجمہ: اور اس شخص سے زیادہ اور کون ظالم ہوگا جو خدا تعالیٰ کی مسجدوں میں ان کا ذکر ( اور عبادت) کیے جانے سے بندش کرے اور ان کے ویران (ومعطل) ہونے (کے بارے) میں کوشش کرے ۔ ان لوگوں کو تو کبھی بےہیبت ہوکر ان میں قدم بھی نہ رکھنا چاہیے تھا، (بلکہ جب جاتے ہیبت اور ادب سے جاتے) ان لوگوں کو دنیا میں بھی رسوائی (نصیب) ہوگی اور ان کو آخرت میں بھی سزائے عظیم ہوگی ۔  (بیان القرآن)

بعض ممالک میں جمعہ یا جماعت سے نماز پر پابندی لگ جانے کی صورت میں عامۃ الناس کے لیے حل:

                                       اگر کسی ملک کی حکومت یا مقامی انتظامیہ کی جانب سے باجماعت نمازوں پر پابندی لگادی جائے تو  حکمت و تدبیر کے ساتھ پر امن انداز میں انہیں اسلامی اَحکام سے آگاہ کریں اور ہر ممکن کوشش کریں کہ وہ اس پابندی ہٹا دیں۔ اور جب تک پابندی رہے تو خوفِ ظلم کی وجہ سے اور حرج کی نفی کے پیشِ نظر مسجد کی نماز چھوٹ جانے کا عذر معتبر ہے،  ایسی صورت میں کوشش کیجیے کہ گھر پر ہی باجماعت نماز کا اہتمام ہو۔

                             اور جمعہ کی نماز میں چوں کہ مسجد کا ہونا شرط نہیں ہے؛ لہذا شہر، فنائے شہر یا بڑی بستی میں اگر امام کے علاوہ کم از کم تین بالغ مرد مقتدی ہوں اور نماز پڑھنے والوں کی طرف سے دوسرے لوگوں کو نماز میں شرکت کی ممانعت نہ ہو  تو  جمعہ کی نماز قائم کی جائے؛  لہٰذا جمعہ کا وقت ہوجانے کے بعد پہلی اذان دی جائے اور سنتیں ادا کرکے دوسری اذان دی جائے اور امام خطبہ مسنونہ پڑھ کر دو رکعت نماز پڑھا دے، چاہے گھر میں ہوں یا کسی اور جگہ جمعہ ہو کر پڑھ لیں۔

جمعہ کا مسنون خطبہ جامعہ کی درج ذیل لنک میں ملاحظہ کریں :

جمعہ کا خطبہ

تاہم  جمعہ کے صحیح ہونے کی شرائط  موجود ہونے کی صورت میں بغیر عذر کے جمعہ چھوڑ کر ظہر کی نماز پڑھنا گناہ ہے، اور اگر کسی نے ظہر پڑھ ہی لی تو اس سے وقت کا فریضہ ساقط ہوجائےگا۔ اور اگر جمعہ کی شرائط مکمل نہ ہوسکیں تو ظہر کی نماز تنہا ادا کریں۔

نوٹ: اگر مذکورہ لنک پر درج خطبہ پڑھنے میں کسی کو دشواری ہو تو اس کے علاوہ کوئی بھی خطبہ پڑھا جاسکتاہے، اور جس جگہ کسی کو کوئی خطبہ یاد نہ ہو اور مذکورہ خطبہ پڑھنا بھی دشوار ہو تو عربی خطبے میں اتنا بھی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء، درود شریف، تقویٰ اور نصیحت پر مشتمل کوئی بھی آیت اور قرآن سے جو آیات یاد ہوں، دونوں خطبوں میں پڑھ کر نمازِ جمعہ ادا کرلی جائے۔

                                 اللہ جل شانہ عم نوالہ اپنی رحمت و فضل، اور سید المرسلین خاتم النبیین ﷺ کی برکت و صدقے کے طفیل امتِ مسلمہ اور پوری دنیا کو  سچی توبہ اور حقیقی معنیٰ میں انابت الی اللہ کی توفیق عطا فرمائے، اور امت کو  موجودہ اَحوال میں اپنے حبیب ﷺ کی سیرت و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے، تنبیہِ خداوندی کے اس نازک وقت میں آپس کے اختلافات اور ایک دوسرے کی کم زوریوں پر نظر رکھ کر ان پر تبصروں سے امت کے طبقۂ خواص کو محفوظ فرمائے! اور ہر طرح کے مصائب و آفات اور وبائی امراض سے بھی نجات عطا فرمائے! آمین یا رب العالمین بحرمۃ سید المرسلین حبیب اِلٰہ العالمین سیدنا و مولانا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ و ازواجہ و اتباعہ و ذریتہ اجمعین وبارک و سلم تسلیما کثیراً!

اس حوالے سے مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر تفصیلی فتاویٰ ملاحظہ کیجیے:

کرونا وائرس اور باجماعت نمازوں پر پابندی!

کرونا وائرس اور دیگر وبائی امراض میں مسلمانوں کے لیے راہ نمائی 

التفسير المظهري (1 / 116):

"منصوب على العلية أي كراهة أن يذكر وسعى في خرابها بالتعطيل عن ذكر الله، فانهم لما منعوا من يعمره بالذكر فقد سعوا في خرابه".

فتح القدير للشوكاني (1 / 153):

"والمراد بالسعي في خرابها: هو السعي في هدمها، ورفع بنيانها، ويجوز أن يراد بالخراب: تعطيلها عن الطاعات التي وضعت لها، فيكون أعم من قوله: أن يذكر فيها اسمه فيشمل جميع ما يمنع من الأمور التي بنيت لها المساجد، كتعلم العلم وتعليمه، والقعود للاعتكاف، وانتظار الصلاة ويجوز أن يراد ما هو أعم من الأمرين، من باب عموم المجاز".

تفسير الألوسي = روح المعاني (1 / 362):

"وكني بذكر اسم الله تعالى عما يوقع في المساجد من الصلوات والتقربات إلى الله تعالى بالأفعال القلبية والقالبية المأذون بفعلها فيها.

وسعى في خرابها أي هدمها وتعطيلها".

تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير (4 / 12):

"المسألة الخامسة: السعي في تخريب المسجد قد يكون لوجهين. أحدهما: منع المصلين والمتعبدين والمتعهدين له من دخوله فيكون ذلك تخريبا. والثاني: بالهدم والتخريب".

تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير (4 / 13):

"وثانيها: قوله تعالى: {إنما يعمر مساجد الله من آمن بالله واليوم الآخر} [التوبة: 18] فجعل عمارة المسجد دليلا على الإيمان، بل الآية تدل بظاهرها على حصر الإيمان فيهم، لأن كلمة إنما للحصر".

تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير (4 / 13):

"هذه الآية التي نحن في تفسيرها وهي قوله تعالى: ومن أظلم ممن منع مساجد الله أن يذكر فيها اسمه فإن ظاهرها يقتضي أن يكون الساعي في تخريب المساجد أسوأ حالاً من المشرك".

تفسير القرطبي (2 / 77):

"خراب المساجد قد يكون حقيقيًّا كتخريب بخت نصر والنصارى بيت المقدس على ما ذكر أنهم غزوا بني إسرائيل مع بعض ملوكهم، - قيل: اسمه نطوس بن اسبيسانوس الرومي فيما ذكر الغزنوي- فقتلوا وسبوا، وحرقوا التوراة، وقذفوا في بيت المقدس العذرة وخربوه. ويكون مجازًا كمنع المشركين المسلمين حين صدوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن المسجد الحرام، وعلى الجملة فتعطيل المساجد عن الصلاة وإظهار شعائر الإسلام فيها خراب لها".

أحكام القرآن للجصاص ت قمحاوي (1 / 75):

"{ومن أظلم ممن منع مساجد الله أن يذكر فيها اسمه} والمنع يكون من وجهين: أحدهما بالقهر والغلبة، والآخر الاعتقاد والديانة والحكم؛ لأن من اعتقد من جهة الديانة المنع من ذكر الله في المساجد فجائز أن يقال فيه: قد منع مسجدًا أن يذكر فيه اسمه فيكون المنع هاهنا معناه الحظر، كما جائز أن يقال: منع الله الكافرين من الكفر والعصاة من المعاصي بأن حظرها عليهم وأوعدهم على فعلها، فلما كان اللفظ منتظمًا للأمرين وجب استعماله على الاحتمالين".

الفتاوى الهندية (1 / 148):

(ومنها الجماعة) وأقلها ثلاثة سوى الإمام

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 154):

(قوله: وعدم خوف) أي من سلطان أو لص منح.

المبسوط للسرخسي (2 / 25):

وأما الإساءة فلتركهم أداء الجمعة بعد ما استجمعوا شرائطها وفي حديث ابن عمر قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «من ترك ثلاث جمع تهاونا بها طبع على قلبه»

الموسوعة الفقهية الكويتية (37 / 195):

"بناء المساجد وعمارتها ووظائفها

 يجب بناء المساجد في الأمصار والقرى والمحال - جمع محلة - ونحوها حسب الحاجة وهو من فروض الكفاية.

الفتاوى الهندية (1 / 146):

"الإمام إذا منع أهل المصر أن يجمعوا لم يجمعوا، قال الفقيه أبو جعفر - رحمه الله تعالى -: هذا إذا نهاهم مجتهدًا بسبب من الأسباب، وأراد أن يخرج ذلك الموضع من أن يكون مصراً، فأما إذا نهاهم متعنتًا أو ضرارًا بهم فلهم أن يجتمعوا على رجل يصلي بهم الجمعة، كذا في الظهيرية".

البناية شرح الهداية (3 / 78):

"وفي " المرغيناني ": إذا منع الإمام أهل المصر أن يجمعوا لايجمعون، وقال أبو جعفر: هذا إذا منعهم باجتهاد، وأراد أن يخرج تلك البقعة أن تكون مصرًا، فأما إذا نهاهم تعنتًا أو إضرارًا بهم، فلهم أن يجمعوا على من يصلي بهم".

المبسوط للسرخسي، باب صلاة الجمعة، 2/33-35:

"(قَالَ:) وَإِذَا فَزِعَ النَّاسُ فَذَهَبُوا بَعْدَ مَا خَطَبَ الْإِمَامُ لَمْ يُصَلِّ الْجُمُعَةَ إلَّاأَنْ يَبْقَى مَعَهُ ثَلَاثَةُ رِجَالٍ سَوَاءٍ لِأَنَّ الْجَمَاعَةَ مِنْ شَرَائِطِ افْتِتَاحِ الْجُمُعَةِ. وَقَدْ بَيَّنَّا اخْتِلَافَهُمْ فِي مِقْدَارِهَا وَإِنْ بَقِيَ مَعَهُ ثَلَاثَةٌ مِنْ الْعَبِيدِ أَوْ الْمُسَافِرِينَ يُصَلِّي بِهِمْ الْجُمُعَةَ لِأَنَّهُمْ يَصْلُحُونَ لِلْإِمَامَةِ فِيهَا بِخِلَافِ مَا إذَا بَقِيَ ثَلَاثَةٌ مِنْ النِّسَاءِ أَوْ الصِّبْيَانِ وَإِنْ كَانَ صَلَّى بِالنَّاسِ رَكْعَةً ثُمَّ ذَهَبُوا أَتَمَّ صَلَاتَهُ جُمُعَةً عِنْدَنَا". فقط واللہ اعلم

نوٹ: وبائی امراض کے اسباب و حکمتیں، اس ماحول میں ایمانی تقاضے اور ان امراض کے حوالے سے مسلمانوں کے لیے تدابیر اور لائحۂ عمل کے حوالے سے بھی بعض سوالات موصول ہوئے ہیں، ان موضوعات سے متعلق تفصیلی راہ نمائی ان شاء اللہ تعالیٰ بہت جلد اس طرح کے سوالات کے جوابات میں کردی جائے گی۔ یہاں اسی پر اکتفا کیا جاتاہے۔


فتوی نمبر : 144107200537

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں