ایک آدمی کرایہ پر لگانے کے لیے مکان لیتا ہے یا بناتا ہے کہ کچھ عرصہ کرایہ وصول کر کے مکان بیچ کر دوسرا مکان کرایہ کے لیے (یا بیچنے کے لیے لے لوں گا ) تواس مکان پر زکاۃ کا کیا حکم ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مکان خریدتے وقت اصل نیت اسے کرایہ پر اٹھانے کی تھی تو اس صورت میں اس کی ویلیو پر زکاۃ واجب نہ ہوگی، تاوقتیکہ وہ فروخت نہ کردے، اور اگر مکان یا زمین لیتے وقت اصل نیت فروخت کرنے کی تھی تو اس صورت میں ہر سال کی مارکیٹ ویلیو معلوم کرکے اس کا ڈھائی فیصد بطورِ زکاۃ ادا کرنا واجب ہوگا، تاوقتیکہ اسے بیچنے کی نیت ختم کردی جائے، جب فروخت کرنے کی نیت ختم کردی، خواہ اسے رکھنے کی نیت ہو یا کرایہ پر چڑھانے کی، اس کے بعد سے زکاۃ واجب نہیں ہوگی۔ البتہ کرایہ کی مد سے حاصل شدہ آمدنی اگر سال بھر محفوظ رہے اور ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے مساوی یا اس سے زائد ہو یا مذکورہ شخص پہلے سے صاحبِ نصاب ہو تو زکاۃ کا سال مکمل ہونے پر کل کا ڈھائی فیصد بطورِ زکاۃ ادا کرنا واجب ہوگا۔
الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:
"أما العقار الذي يسكنه صاحبه أو يكون مقراً لعمله كمحل للتجارة و مكان للصناعة فلا زكاة فيه". ( كتاب الزكوة، معني عروض التجارة، ٢/ ٧٨٧) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012201415
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن