بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کراچی سے کسی کام سے جدہ جا کر پھر وہاں سے عمرہ کرنے والے کے احرام کا حکم


سوال

میرے ایک دوست کا کراچی سے جدہ جانے کا ارادہ ہے اپنے بھائی کے گھر ، پھر وہاں سے وہ مکہ مکرمہ جائے گا عمرہ کرنے. تو کیا کراچی سے احرام باندھنا لازم ہوگا?

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے دوست  کا ارادہ"جدہ"  اپنے بھائی کے گھر جانے کا ہےاور پھر  وہاں سے فارغ ہونے کے بعد موقع ملنے پر عمرہ بھی کرلینے کاارادہ ہے تو ایسی صورت میں چوں کہ گھر سے نکلتے ہوئے اصلاً "جدہ" جانے کا ہی ارادہ ہے؛ اس لیے اسے یہاں کراچی سے یا میقات سےاحرام باندھنا  لازم نہیں ہے، پھر جب بھائی سے ملاقات کے بعد موقع ملنے پر عمرہ کا ارادہ ہوتو وہیں سے احرام باندھ کر عمرہ کے لیے چلا جائے۔

لیکن اگر آپ کے دوست کا کراچی سے نکلتے وقت اصل مقصد یہ ہے کہ مجھے عمرہ کرنا ہے، درمیان میں جدہ میں بھائی سے ملاقات بھی کرلوں گا اور ملاقات کرکے  پھر آگے عمرہ کے لیے جاؤں گا تو ایسی صورت میں میقات سے پہلے پہلے احرام باندھ کر گزرنا ضروری ہوگا۔

اس لیے کہ فقہاءِ کرام نے لکھا ہے کہ میقات سے باہر رہنے والا اگر حج یا عمرہ کے  ارادے سے یا مکہ یا حرم میں داخل ہونے کے ارادہ سے مواقیتِ خمسہ میں سے کسی میقات سے گزرے تو اس کے لیے حج یا عمرہ کا احرام باندھنا ضروری ہے ، احرام کے بغیر میقات سے تجاوز کرنا درست نہیں ہے، احرام کے بغیر میقات سے تجاوز کرنے کی صورت میں دم لازم ہوگا اور ایک عمرہ یا حج کی قضا بھی کرنا لازم ہوگی، البتہ اگر میقات سے باہر رہنے والا آدمی کسی ایسی جگہ جانے کا ارادہ  کرے جو میقات کے اندر ہو لیکن حرم سے باہر ہو  یعنی حل میں واقع ہو تو ایسی جگہ کا قصد کرنے کی صورت میں میقات سے گزرتے ہوئے اس پر احرام کی حالت میں ہونا لازم نہیں ہے، بلکہ بغیر احرام کے بھی وہ میقات سے گزر سکتا ہے، پھر میقات  کے اندر پہنچنے کے بعد وہ چوں کہ اہلِ حل میں سے ہوگیا؛ اس لیے اب اگر وہ وہاں سے عمرہ یا حج کے لیے مکہ کا قصد کرتا ہے تو اس کے لیے لازم ہے کہ حرم میں داخل ہونے سے پہلےاحرام کی نیت کرکے احرام کی چادر باندھ لے، چناں چہ حرم سے باہر حل میں کسی بھی جگہ احرام باندھ لینا اس کے لیے  کافی ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:

"(دخل كوفي) أي آفاقي (البستان) أي مكاناً من الحل داخل الميقات (لحاجة) قصدها، ولو عند المجاوزة، على ما مر، ونية مدة الإقامة ليست بشرط على المذهب (له دخول مكة غير محرم، ووقته البستان ولا شيء عليه)؛ لأنه التحق بأهله، كما مر. (قوله: أي آفاقي) أفاد أن المراد بالكوفي كل من كان خارج المواقيت، (قوله: البستان) أي بستان بني عامر: وهو موضع قريب من مكة داخل الميقات خارج الحرم، وهي التي تسمى الآن نخلة محمود بن كمال. زاد غيره أن منه إلى مكة أربعة وعشرين ميلاً ... (قوله: أي مكاناً من الحل) أشار إلى أن البستان غير قيد؛ وأن المراد مكان داخل المواقيت من الحل. والظاهر أنه لا يشرط أن يقصد مكاناً معيناً؛ لأن الشرط عدم قصد دخول الحرم عند المجاوزة؛ فأي مكان قصده من داخل المواقيت حصل المراد كما سيتضح، فافهم (قوله: لحاجة) كذا في البدائع والهداية والكنز وغيرها، وهو احتراز عما إذا أراد دخول مكان من الحل لمجرد المرور إلى مكة؛ فإنه لايحل له إلا محرماً، فلا بد من هذا القيد، وإلا فكل آفاقي أراد دخول مكة، لا بد له من دخول مكان في الحل. على أنه في البحر جعل الشرط قصده الحل من حين خروجه من بيته: أي ليكون سفره لأجله، لا لدخول الحرم، كما يأتي، ولذا قال ابن الشلبي في شرحه ومنلا مسكين: لحاجة له بالبستان لالدخول مكة ... (قوله: ولو عند المجاوزة) الظرف متعلق بقصدها أي ولو كان قصد الحاجة التي هي علة إرادته دخول البستان عند مجاوزة الميقات، أما بعد المجاوزة فلا يعتبر قصد الحاجة؛ لكونه عند المجاوزة كان قاصداً مكة، فلا يسقط الدم ما لم يرجع. وأفاد أنه لو قصد دخول البستان لحاجة قبل المجاوزة فهو كذلك بالأولى، وإن قصده لذلك من حين خروجه من بيته غير شرط ... وحاصله: أن الشرط أن يكون سفره لأجل دخول الحل، وإلا فلاتحل له المجاوزة بلا إحرام. قال في النهر: الظاهر أن وجود ذلك القصد عند المجاوزة كاف، ويدل على ذلك ما في البدائع بعد ما ذكر حكم المجاوزة بغير إحرام، قال: هذا إذا جاوز أحد هذه المواقيت الخمسة يريد الحج أو العمرة أو دخول مكة أو الحرم بغير إحرام، فأما إذا لم يرد ذلك وإنما أراد أن يأتي بستان بني عامر أو غيره لحاجة فلا شيء عليه اهـ فاعتبر الإرادة عند المجاوزة، كما ترى اهـ أي إرادة الحج ونحوه، وإرادة دخول البستان، فالإرادة عند المجاوزة معتبرة فيهما. ولذا ذكر الشارح ذلك في الموضعين، كما قدمناه، فافهم. وقول البحر: فلا بد من وجود قصد مكان مخصوص من الحل غير ظاهر، بل الشرط قصد الحل فقط، تأمل ... (قوله: له دخول مكة غير محرم) أي إذا أراد دخول البستان لحاجة لا لدخول مكة، ثم بدا له دخول مكة لحاجة، له دخولها غير محرم، كما في شرح ابن الشلبي ومنلا مسكين. قال في الكافي: لأن وجوب الإحرام عند الميقات على من يريد دخول مكة، وهو لا يريد دخولها، وإنما يريد البستان، وهو غير مستحق التعظيم، فلا يلزمه الإحرام بقصد دخوله. اهـ ... فعلم أن الشرط لسقوط الإحرام أن يقصد دخول الحل فقط، ويدل عليه أيضاً ما نقلناه عن الكافي من قوله: وهو لا يريد دخولها أي مكة، وإنما يريد البستان، وكذا ما نقلناه عن البدائع من قوله: فأما إذا لم يرد ذلك، وإنما أراد أن يأتي بستان بني عامر، وكذا قوله في اللباب: ومن جاوز وقته يقصد مكاناً من الحل، ثم بدا له أن يدخل مكة، فله أن يدخلها بغير إحرام. فقوله: ثم بدا له أي ظهر وحدث له، يقتضي أنه لو أراد دخول مكة عند المجاوزة يلزمه الإحرام وإن أراد دخول البستان؛ لأن دخول مكة لم يبد له، بل هو مقصوده الأصلي، وقد أشار في البحر إلى هذا الإشكال، وأشار إلى جوابه بما تقدم عنه من أنه لا بد أن يكون قصد البستان من حين خروجه من بيته: أي بأن يكون سفره المقصود لأجل البستان، لا لأجل دخوله مكة، كما قدمناه. وأجاب أيضاً في شرح اللباب بقوله: والوجه في الجملة أن يقصد البستان قصداً أولياً، ولا يضره دخول الحرم بعده قصداً ضمنياً أو عارضياً، كما إذا قصد هندي جدة لبيع وشراء أولاً ويكون في خاطره أنه إذا فرغ منه أن يدخل مكة ثانياً، بخلاف من جاء من الهند بقصد الحج أولاً ويقصد دخول جدة تبعاً ولو قصد بيعاً وشراءً. اهـ".(کتاب الحج، باب الجنایات فی الحج، ج: ۲ ؍۵۸۱ ،۵۸۲ ،۵۸۳ ، ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202183

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں