بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کافروں کے ملک میں رہنے سے متعلق حدیث


سوال

کیا ایسی کوئی حدیث ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ جو شخص کافروں کے ملک میں رہائش اختیار کرتا ہے تو میں اس کے ایمان سے بری ہوں؟

جواب

اس طرح کی روایات موجود ہیں جن میں کفار کے ساتھ رہنے کی ممانعت آئی ہے، مثلاً امام ترمذی رحمہ اللہ نے حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

"أنا بريٴ من کلّ مسلّم یقیم بین أظهر المشرکین قالوا: یارسول اللّٰه ولم؟ قال لاتراءی ناراهما"․ (سنن الترمذي، کتاب السیر، باب ماجاء في کراهية المقام بین أظهر  المشرکین: ۴/۱۵۵، ط: داراحیاء التراث )

ترجمہ: میں ہر ایسے مسلمان سے بری ہوں جومشرکین کے درمیان رہتا ہو، لوگوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیوں؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دونوں اتنی دور رہیں کہ ان میں سے کوئی دوسرے کی آگ نہ دیکھ سکے۔

اسی طرح یہ روایت سنن ابوداؤد ، سنن النسائی وغیرہ میں بھی منقول ہے، اس پر اگرچہ بعض حضرات نے کلام کیا ہے ،لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہ حدیث کم از کم حسن درجہ کی ہے جو حدیث کے باب میں قابلِ قبول ہے۔

البتہ ان روایات کا اِطلاق عموم کے ساتھ غیراسلامی ملکوں پر نہیں ہوسکتا، بلکہ ان کا مصداق صرف وہ ممالک قرار دیے جائیں گے جہاں مسلمانوں کے لیے دین پر آزادانہ عمل کی راہ میں مشکلات ہوں، اورہجرت کے سوا اسلامی زندگی گزارنے کی کوئی صورت موجود نہ ہو ۔اگردارالکفر   بے حیائی کے طوفان میں گھرا ہوا ہو،اور کوئی شخص کسی نیک یا دینی مقصد کے لیے نہیں، بلکہ معیارِ زندگی بلند کرنے اور خوش حالی و عیش وعشرت کی زندگی گزارنے کی غرض سے وہاں جاتا ہے، یہ ترکِ وطن کراہت سے خالی نہیں، بلکہ خود کو منکرات و فواحش کے طوفان میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔بے حیائی اور فحاشی  اور دیگر منکرات کی موجودگی  میں مسلمان کافروں کے ساتھ گھل مل جاتا ہے اور دین سے دور نکل جاتاہے۔اسی بنا پر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کفار کے درمیان اقامت(نیشنلٹی) اختیار کرنے کوکفار کی مماثلت قرار دیا، جیساکہ ابو داؤد میں ہے:

’’باب في الإقامة بأرض المشرك‘‘

’’قال رسول اﷲصلی اﷲ علیه وسلم:’’ من جامع المشرك وسکن معه فإنه مثله‘‘، آخر کتاب الجهاد‘‘. ( سنن أبي داؤد، کتاب الجهاد، باب في الإقامة بأرض المشرك: ۲/۳۸۵ ، ط: میر محمد کتب خانہ)

حدیثِ مذکور میں اجتماع سے مراد ان کے ملک وشہر میں ایک ساتھ رہناہے، اسی بنا پر فقہا نے صرف ملازمت کے لیے دارالحرب جانے کو ناجائز لکھا ہے، لیکن اگر دین کی حفاظت کے لیے کسی ایسے ملک جاتا ہے جہاں پر اسے دینی اعتبار سے نقصان نہیں پہنچایا جائے گا اور وہ آزادانہ اپنے دین پر عمل کرسکتا ہے تو ایسی صورت میں جانے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی، ایسی صورت میں جانے کی اجازت ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200726

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں