کیا یہ جائز ہے کہ ایک شخص نفلی طواف کے سات چکر لگانے کے بعد اسی دوران بغیر وقفہ کے دوسرا طواف شروع کرے اور پھر تیسرا یعنی طواف میں تسلسل کرے، حال یہ کہ نماز کے لیے وقت مکروہ بھی نہ ہو اور آخر میں ہر طواف کے دو دو رکعت علیحدہ علیحدہ کر کے ایک وقت میں پڑھے ۔
صورتِ مسئولہ میں مسنون طریقہ یہی ہے کہ ہر طواف کی تکمیل پر دو رکعت واجب ادا کرنے کے بعد دوسرا طواف شروع کیا جائے، کئی طواف ایک ساتھ کرکے آخر میں ان کی واجب رکعات ادا کرنا مکروہ ہے، اگر کبھی عذر کی وجہ سے کسی نے کئی طواف کے بعد دو دو کرکے ہر طواف کے بعد دو رکعات ادا کرلیں تو اس پر کوئی دم یا کفارہ لازم نہیں، تاہم ایسی عادت بنانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
ارشاد الساری میں ہے:
"فعليه لكل أسبوع ركعتان على حدتين) في ضمن فرض أو سنة". ( ص: ١١٣)
"المبسوط" میں ہے:
"قَالَ: وَيُكْرَهُ أَنْ يَجْمَعَ بَيْنَ أُسْبُوعَيْنِ مِنْ الطَّوَافِ قَبْل أَنْ يُصَلِّيَ فِي قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَهَا اللَّهُ تَعَالَى، وَقَالَ أَبُو يُوسُفَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -: لَا بَأْسَ بِذَلِكَ إذَا انْصَرَفَ عَلَى وِتْرٍ: ثَلَاثَةِ أَسَابِيعَ أَوْ خَمْسَةِ أَسَابِيعَ؛ لِحَدِيثِ عَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - أَنَّهَا طَافَتْ ثَلَاثَةَ أَسَابِيعَ ثُمَّ صَلَّتْ لِكُلِّ أُسْبُوعٍ رَكْعَتَيْنِ، وَلِأَنَّ مَبْنَى الطَّوَافِ عَلَى الْوِتْرِ فِي عَدَدِ الْأَشْوَاطِ فَإِذَا انْصَرَفَ عَلَى وِتْرٍ لَمْ يُخَالِفْ انْصِرَافُهُ مَبْنَى الطَّوَافِ، وَاشْتِغَالُهُ بِأُسْبُوعٍ آخَرَ قَبْلَ الصَّلَاةِ كَاشْتِغَالِهِ بِأَكْلٍ أَوْ نَوْمٍ، وَذَلِكَ لَايُوجِبُ الْكَرَاهَةَ، فَكَذَا هُنَا إذَا انْصَرَفَ عَلَى مَا هُوَ مَبْنَى الطَّوَافِ بِخِلَافِ مَا إذَا انْصَرَفَ عَلَى شَفْعٍ؛ لِأَنَّ الْكَرَاهَةَ هُنَاكَ لِانْصِرَافِهِ عَلَى مَا هُوَ خِلَافُ مَبْنَى الطَّوَافِ لَا لِتَأْخِيرِهِ الصَّلَاةَ. وَأَبُو حَنِيفَةَ وَمُحَمَّدٌ رَحِمَهُمَا اللَّهُ تَعَالَى قَالَا: إتْمَامُ كُلِّ أُسْبُوعٍ مِنْ الطَّوَافِ بِرَكْعَتَيْنِ، فَيُكْرَهُ لَهُ الِاشْتِغَالُ بِالْأُسْبُوعِ الثَّانِي قَبْلَ إكْمَالِ الْأَوَّلِ، كَمَا أَنَّ إكْمَالَ كُلِّ شَفْعٍ مِنْ التَّطَوُّعِ لَمَّا كَانَ بِالتَّشَهُّدِ يُكْرَهُ لَهُ الِاشْتِغَالُ بِالشَّفْعِ الثَّانِي قَبْلَ إكْمَالِ الْأَوَّلِ. [المبسوط للسرخسي : ٤/ ٤٧] فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012200308
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن