بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈیم تعمیر کرانے میں چندہ دینا صدقہ جاریہ ہے


سوال

کیا ڈیمز کی تعمیر میں چندہ دینا بھی صدقہ جاریہ ہے؟

جواب

 اللہ نے جو بھی چیز پیدا کی ہے وہ بندہ کے حق میں اللہ کی نعمت ہے، لیکن انسانی زندگی میں پانی کو جو اہمیت ہے اس کے پیشِ نظر بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ اللہ کی ان بڑی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے جن کے بغیر انسانی زندگی کی بقا ممکن نہیں، اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں:  ﴿ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْءٍ حَيٍّ﴾ترجمہ: ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے بنایا ہے۔ پھر مخلوقِ خدا کے لیے اس کی ضرورت اتنی ہی وسیع اور ہمہ گیر ہے کہ قدم قدم پر انسانی زندگی اس کے وجود اور اس کی فراہمی کی محتاج ہوتی ہے، خاص طور پر گرم علاقوں میں پانی کی اہمیت کہیں زیادہ محسوس ہوتی ہے جہاں پانی کی فراہمی آسانی سے نہیں ہوتی، اسی لیے آں حضرت ﷺ نے پانی کو بہترین صدقہ ارشاد فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ پانی کے حصول کا ہر ذریعہ خواہ کنواں ہو یا نل والا تالاب بہترین صدقہ جاریہ ہے کہ جب تک وہ ذریعہ موجود رہتا ہے اس کو قائم کرنے والا اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے نوازا جاتا ہے۔ لہذا اگر واقعی  اس رقم  سے ڈیم تعمیر کیا جائے تو یقیناً یہ بہترین صدقہ جاریہ ہے، حدیث مبارکہ میں ہے:

'' وعن سعد بن عبادة قال : يا رسول الله، إن أم سعد ماتت فأي الصدقة أفضل ؟ قال : " الماء " . فحفر بئراً، وقال : هذه لأم سعد . رواه أبو داود والنسائي''۔
ترجمہ:حضرت سعد بن عبادہ   رضی اللہ عنہ  راوی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ام سعد (یعنی میری ماں) کا انتقال ہو گیا ہے (ان کے ایصال ثواب کے لیے) کون سا صدقہ بہتر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: " پانی" چناں چہ حضرت سعد  رضی اللہ عنہ  نے آں حضرت ﷺ کا یہ ارشاد سن کر کنواں کھودا اور کہا کہ یہ ''ام سعد''  یعنی میری ماں کے لیے صدقہ ہے۔ (ابو داؤد ، نسائی)

'' حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ هِشَامٍ صَاحِبِ الدَّسْتُوَائِيِّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: سَقْيُ الْمَاءِ''۔
ترجمہ: حضرت سعد بن عبادہ   رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول، صدقہ کی کون سی صورت زیادہ فضیلت کا باعث ہے؟ فرمایا پانی پلانا۔ ( ابن ماجہ)

'' حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَا: حَدَّثَنَا وَکِيعٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَصُفُّ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صُفُوفًا، وَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: أَهْلُ الْجَنَّةِ فَيَمُرُّ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ عَلَی الرَّجُلِ، فَيَقُولُ: يَا فُلَانُ أَمَا تَذْکُرُ يَوْمَ اسْتَسْقَيْتَ فَسَقَيْتُکَ شَرْبَةً؟ قَالَ: فَيَشْفَعُ لَهُ، وَيَمُرُّ الرَّجُلُ فَيَقُولُ : أَمَا تَذْکُرُ يَوْمَ نَاوَلْتُکَ طَهُورًا؟ فَيَشْفَعُ لَهُ، قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: وَيَقُولُ: يَا فُلَانُ أَمَا تَذْکُرُ يَوْمَ بَعَثْتَنِي فِي حَاجَةِ کَذَا وَکَذَا فَذَهَبْتُ لَکَ فَيَشْفَعُ لَهُ''۔
ترجمہ: حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے روز لوگ (دوسری روایت میں اہلِ جنت) صفوں میں کھڑے ہوں گے کہ ایک دوزخی ایک مرد کے پاس سے گزرے گا اور کہے گا: ارے فلاں آپ کو یاد نہیں وہ دن جب آپ نے پانی مانگا تھا تو میں نے آپ کو ایک گھونٹ پلایا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: چناں چہ یہ جنتی اس دوزخی کی سفارش کرے گا، اور ایک مرد گزرے گا تو کہے گا: آپ کو وہ دن یاد نہیں جب میں نے آپ کو طہارت کے لیے پانی دیا تھا، چناں چہ یہ بھی اس کی سفارش کرے گا۔ دوسری روایت میں ہے کہ دوزخی کہے گا: ارے فلاں آپ کو وہ دن یاد نہیں جب آپ نے مجھے فلاں کام کے لیے بھیجا تھا تو میں آپ کے کہنے پر (اس کام کے لیے) چلا گیا تھا، چناں چہ یہ بھی اس کی سفارش کرے گا۔(ابن ماجہ )

'' حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَالِکِ بْنِ جُعْشُمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَمِّهِ سُرَاقَةَ بْنِ جُعْشُمٍ قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ضَالَّةِ الْإِبِلِ تَغْشَی حِيَاضِي قَدْ لُطْتُهَا لِإِبِلِي، فَهَلْ لِي مِنْ أَجْرٍ إِنْ سَقَيْتُهَا؟ قَالَ: نَعَمْ فِي کُلِّ ذَاتِ کَبِدٍ حَرَّی أَجْرٌ''۔
ترجمہ: عبدالرحمن بن مالک بن جعشم  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ گم شدہ اونٹ میرے حوضوں پر آجاتے ہیں، جنہیں میں نے اپنے اونٹوں کے لیے تیار کیا تو اگر میں ان گمشدہ اونٹوں کو پانی پلاؤں تو مجھے اجر ملے گا ؟ فرمایا: جی ہاں!  ہر کلیجہ والی (زندہ) چیز جس کو پیاس لگتی ہو (کوپانی پلانے اور کھلانے) میں اجر ہے ۔( سنن ابن ماجہ)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201384

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں