میرے بھائی نے والد صاحب کے کہنے پر ایک مکان میں میرا نام ڈال دیا. جس میں میں نے کوئی پیسہ نہیں دیا تھا. اس وقت میں طالب علم تھا. میرا بھائی گورنمنٹ کا ملازم ہے، جہاں سے وہ تنخواہ کے علاوہ اوپر سے بہت زیادہ پیسے کماتاہے. جب مجھے اس باریکی کا پتا چلا تو میں نے بھائی کو اور سب گھر والوں کو کہا کہ اپنا مکان اپنے نام کروا لو، لیکن وہ بولا نہیں، یہ اب تمہاری چیز ہے، میں واپس نہیں لیتا. اب والد صاحب کا بھی انتقال ہو گیا ہے اور اب وہ مکان نیلام ہو گیا ہے، کیا اس مکان سے ملنے والی رقم میرے لیے حلال و جائز ہے؟
مذکورہ صورت میں آپ کے والد یا آپ کے بھائی میں سے جس نے مذکورہ گھر خریدا تھا ، یہ ان کی طرف سے آپ کے لیے تحفہ تھا، اگر والد کی طرف سے تھا اور آپ نے ان کی زندگی میں اس پر مکمل قبضہ نہیں کیا تھا تو یہ گھر والد کی وراثت کا حصہ ہے، اگر تمام ورثاء بخوشی آپ کو دیں تو آ پ لے سکتے ہیں، ورنہ آپ کا اس میں اپنی وراثت کے بقدر حصہ ہے۔ اور اگر کاغذات میں نام کرانے کے ساتھ ساتھ والد صاحب نے اپنی زندگی میں آپ کو مکمل قبضہ واختیار دے دیا تھا تو مذکورہ مکان آپ کی ملکیت شمار ہوگا۔
اور اگر آپ کے بھائی نے خرید کر آپ کو تحفہ دیا ، تو اگر ان کی اکثر کمائی حلال ہے، یا اس مکان کی قیمت انہوں نے حلال آمدن سے ادا کی ہو تو آپ اس گھر کی رقم لے سکتے ہیں، ورنہ (بھائی کی اکثر آمدن حرام ہو یا متعینہ طور پر انہوں نے یہ مکان حرام رقم سے لیا ہوتو) یہ مکان آپ کے لیے لینا جائز نہیں تھا، اگر وہ مکان بیچ دیا گیا ہے تو اس کی قیمت ثواب کی نیت کے بغیر کسی مستحقِ زکات شخص کو دے دی جائے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008200374
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن