بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

چان بچانے کے لیے ایمان چھپانا


سوال

 آگر کسی مسلمان کو موت کا ڈر ہو  اور وہ  اپنی جان بچانے کے لیے  اپنا ایمان چھپائے  تو کیا ایسا کرنا جائز  ہے؟

جواب

واقعۃً اگر جان جانے یا جبر واکراہ کے نیتجے میں کسی عضو کے تلف ہونے کا خطرہ ہو تو جان بچانے کے لیے ایمان چھپانا یا صرف زبانی طور پر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر نہ کرنا جب کہ دل ایمان پر مطمئن ہو شرعاً اس کی گنجائش ہے،  تاہم اس حالت میں بھی بہتر ہے کہ جس حد تک ہوسکے کلمہ کفر نہ کہے، لہٰذا اگر اس وقت بھی ایمان کا اظہار کیا یا باوجود جبرواکراہ کے کلمہ کفر نہ کہا اور اس حالت میں ماراگیا تو  ثواب کا مستحق ہوگا۔

أحكام القرآن لابن العربي (3/ 160)
'' من تكلم بالكفر بلسانه عن إكراه، ولم يعقد على ذلك قلبه، فإنه خارج عن هذا الحكم، معذور في الدنيا، مغفور في الأخرى''.

(المبسوط للسرخسي (24/ 50)
'' فكذلك يجوز عندنا الكفر بالله إذا أكره عليه، وقلبه مطمئن بالإيمان، وهذا يجوز في العبادة، فإن حرمة الكفر حرمة ثابتة مضمنة لا تنكشف بحال، ولكن مراده أنه يجوز له إجراء كلمة الشرك على اللسان مع طمأنينة القلب بالإيمان؛ لأن الإلجاء قد تحقق، والرخصة في إجراء كلمة الشرك ثابتة في حق الملجأ بشرط طمأنينة القلب بالإيمان إلا أن هنا إن امتنع كان مثاباً على ذلك؛ لأن الحرمة باقية، فهو في الامتناع متمسك بالعزيمة، والمتمسك بالعزيمة أفضل من المترخص بالرخصة''۔
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201138

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں