بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چاندی کا ایک مثقال ایک انگوٹھی میں معتبر ہو گا یا دو میں؟


سوال

 مرد  کے لیے چاندی کی انگوٹھی پہننے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور چاندی کی شرعی مقدار کیا ہے؟ اور اگر مرد چاندی کی دو انگوٹھیاں پہنتا ہے تو چاندی کی جو شرعی مقدار ہے اس کا اعتبار الگ الگ انگوٹھیوں میں کیا جائے گا یا دونوں انگوٹھیوں کے مجموعے میں کیا جائے گا ؟

جواب

ایک مثقال  سے کم  وزن چاندی کی انگوٹھی مردوں کے لیے حلال اور جائز ہے، البتہ بلاضرورت نہ پہننا اولیٰ ہے۔ ایک مثقال  ساڑھے چار ماشے  یعنی۴گرام،۳۷۴ملی گرام (4.374 gm) ہوتا ہے۔ 

روایت میں آتا ہے کہ ایک  شخص نے دریافت کیاکہ یارسول اللہ! میں کس دھات کی انگوٹھی پہنوں؟تو آپ نے فرمایا: چاندی کی، مگر ایک مثقال تک اس کا وزن نہ پہونچے۔

باقی حدیث شریف میں چوں کہ ایک مثقال تک کی اجازت ہے؛ اس لیے اگر کوئی شخص ایک ہی انگوٹھی پہنتا ہے تو  ایک مثقال سے زائد وزن کی انگوٹھی کی اجازت نہیں ہو گی،  اور اگر ایک سے زائد انگوٹھی پہنتا ہے تو اس کا مجموعی وزن ایک مثقال سے زائد ہونا منع ہو گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 358):

"(ولايتحلى) الرجل (بذهب وفضة)  مطلقاً (إلا بخاتم ومنطقة وجلية سيف منها) أي الفضة .. (ولايتختم) إلا بالفضة؛ لحصول الاستغناء بها، فيحرم (بغيرها كحجر) ... ولايزيده على مثقال.

 (قوله: ولايتختم إلا بالفضة) هذه عبارة الإمام محمد في الجامع الصغير، أي بخلاف المنطقة، فلايكره فيها حلقة حديد ونحاس كما قدمه، وهل حلية السيف كذلك؟ يراجع! قال الزيلعي: وقد وردت آثار في جواز التختم بالفضة وكان للنبي صلى الله تعالى عليه وسلم خاتم فضة، وكان في يده الكريمة، حتى توفي صلى الله تعالى عليه وسلم ، ثم في يد أبي بكر رضي الله تعالى عنه إلى أن توفي، ثم في يد عمر رضي الله تعالى عنه إلى أن توفي، ثم في يد عثمان رضي الله تعالى عنه إلى أن وقع من يده في البئر، فأنفق مالاً عظيماً في طلبه فلم يجده، ووقع الخلاف فيما بينهم والتشويش من ذلك الوقت إلى أن استشهد رضي الله تعالى عنه. (قوله: فيحرم بغيرها إلخ)؛ لما روى الطحاوي بإسناده إلى عمران بن حصين وأبي هريرة قال: «نهى رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم عن خاتم الذهب» ، وروى صاحب السنن بإسناده إلى عبد الله بن بريدة عن أبيه: «أن رجلاً جاء إلى النبي صلى الله تعالى عليه وسلم وعليه خاتم من شبه، فقال له: مالي أجد منك ريح الأصنام! فطرحه، ثم جاء وعليه خاتم من حديد، فقال: مالي أجد عليك حلية أهل النار! فطرحه، فقال: يا رسول الله من أي شيء أتخذه؟ قال: اتخذه من ورق ولا تتمه مثقالاً»". فعلم أن التختم بالذهب والحديد والصفر حرام ؛ فألحق اليشب بذلك؛ لأنه قد يتخذ منه الأصنام ، فأشبه الشبه الذي هو منصوص معلوم بالنص، إتقاني، والشبه محركاً: النحاس الأصفر، قاموس۔ وفي الجوهرة: والتختم بالحديد والصفر والنحاس والرصاص مكروه للرجل والنساء ... (قوله: ولايزيده على مثقال)، وقيل: لايبلغ به المثقال، ذخيرة. أقول: ويؤيده نص الحديث السابق من قوله عليه الصلاة والسلام : «ولا تتممه مثقالاً»". فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144106201144

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں