بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پگڑی پر زکاۃ کا حکم


سوال

پگڑی پر زکاۃ کا کیا حکم ہے؟

جواب

موجودہ دور میں پگڑی  کے طور پر جو رقم دی جاتی ہے وہ واپس کرایہ دار کو نہیں ملتی، بلکہ عرف ورواج کے اعتبار سے  مکان اور دکان کا مالک اس رقم کا مالک ہوجاتا ہے، اور زکاۃ مالک پر واجب ہوتی ہے، لہذا پگڑی  کی رقم کی زکاۃ پگڑی دینے والے پر نہیں، بلکہ پگڑی لینے والے پر لازم ہے۔

''ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد''۔ (الفتاوى الهندية 1/ 172، ط: رشدیة)

 یہ واضح رہے کہ مروجہ پگڑی کا  معاملہ شرعاً درست نہیں ہے، اس لیے کہ پگڑی    نہ تو مکمل خرید وفروخت کا معاملہ ہے، اور نہ ہی مکمل اجارہ(کرایہ داری) ہے، بلکہ دونوں کے درمیان کا  ایک  ملا جلامعاملہ ہے، پگڑی پر لیا گیا مکان بدستور مالک کی ملکیت میں برقرار رہتا ہے،لہذا پگڑی کا لین دین شرعاً جائز نہیں ہے، ایسے معاملہ کو جتنا جلدی ہوسکے ختم کرکے اونر شپ کا معاملہ کرلینا چاہیے  یا طویل مدت کے لیے کرایہ داری کا معاملہ کرلینا چاہیے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200172

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں