بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پندرہ سال سے تین تولہ سونا ملکیت میں ہونے کی صورت میں زکاۃ کی ادائیگی کا حکم


سوال

ایک عورت 2004 کو تین تولے سونے کی مالکہ ہوئی ، ابھی تک کوئی زکاۃ ادا نہیں کی جب  کہ ابھی اس کو 95000 میں فروخت کیاتو زکاۃ کیسے ادا کریں؟  جب ایک سال کی زکاۃ  ادا کرے تو وہ رقم پہلے سے یعنی95000 سے نکالے  گی جب دوسرے سال کی  زکاۃ  ادا کرنی ہو یا پوری 95000 کے  حساب سے ہر سال کی زکاۃ  ادا کرنا ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر اس عورت کے پاس گزشتہ سالوں میں صرف تین تولہ سونا تھا،  اس کے علاوہ چاندی، نقد رقم یا مالِ تجارت نہیں تھا، تو  اس سونے پر زکاۃ  لازم نہیں ہوگی، اس لیے کہ  اگر کسی  کی ملکیت میں صرف سونا ہو تو  اس کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا ہوتا ہے۔

البتہ اگر اس عورت کے پاس تین تولہ سونے کے ساتھ چاندی، نقدی، یا مال تجارت بھی تھا تو اب ان کا نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے بقدر رقم ہوگی، لہذا اس صورت میں اس عورت پر سونے کی زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگئی تھی۔

اس کا طریقہ یہ ہے  کہ  زکاۃ  ادا کرتے وقت  سونے کی موجودہ قیمت کا اعتبار ہوگا، اور  گزشتہ  ہر سال کے بدلے اس کا  ڈھائی فیصد ادا کیا جائے گا، اور اس مقدار کو  اگلے سال کی زکاۃ  نکالتے وقت منہا کیا جائے گا، اسی طرح آگے بھی کیا  جائے گا، مثلاً زیور کی مالیت 95000 روپے ہے  ، اور ایک سال  کے بدلے 2375 روپے  زکاۃ دی تو اگلے سال  کی زکاۃ  نکالتے وقت اس کو منہا کرکے بقیہ 92625 روپے  کا چالیسواں حصہ زکاۃ  میں ادا کیا جائے گا، اگر چند سالوں   کی زکاۃ  نکالنے کے بعدزیور  نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) سے کم رہ جائے تو پھر  اس کی زکاۃ  ادا کرنا لازم نہیں ہوگا۔

بدائع الصنائع  میں ہے:

"وأما وجوب الزكاة فمتعلق بالنصاب إذ الواجب جزء من النصاب، واستحقاق جزء من النصاب يوجب النصاب إذ المستحق كالمصروف … وبيان ذلك أنه إذا كان لرجل مائتا درهم أو عشرين مثقال ذهب فلم يؤد زكاته سنتين يزكي السنة الأولى، وليس عليه للسنة الثانية شيء عند أصحابنا الثلاثة، وعند زفر يؤدي زكاة سنتين، وكذا هذا في مال التجارة، وكذا في السوائم إذا كان له خمس من الإبل السائمة مضى عليها سنتان ولم يؤد زكاتها أنه يؤدي زكاة السنة الأولى وذلك شاة ولا شيء عليه للسنة الثانية، ولو كانت عشراً وحال عليها حولان يجب للسنة الأولى شاتان وللثانية شاة، ولو كانت الإبل خمساً وعشرين يجب للسنة الأولى بنت مخاض وللسنة الثانية أربع شياه. ولو كان له ثلاثون من البقر السوائم يجب للسنة الأولى تبيع أو تبيعة ولا شيء للسنة الثانية وإن كانت أربعين يجب للسنة الأولى مسنة وللثانية تبيع أو تبيعة ". (کتاب الزکاة:۲/۷ط سعید) فقط  واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200720

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں