بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پلاٹ پر زکات کا حکم


سوال

 میں متحدہ عرب امارات میں ملازمت کرتا ہوں۔ میرے اسلام آباد میں چار پلاٹ ہیں۔ لیکن ابھی تک ذاتی گھر نہیں ہے۔ انہی چار میں سے کسی ایک پر گھر بنانے کا ارادہ ہے۔ لیکن فی الحال کوئی فائنل نہیں کہ کس والے پر بنانا ہے۔ مجھے ان چاروں پلاٹس پر زکات ادا کرنی ہو گی یا تین پر؟  فی الوقت میری فیملی کرائے کے گھر میں رہ رہی ہے۔ برائے مہربانی راہ نمائی فرما دیں۔

جواب

مذکورہ چار پلاٹ اگر  آپ نے تجارت ( یعنی نفع کمانے) کی نیت سے خریدے تھے (یعنی  خریدتے وقت یہ نیت تھی کہ جب اس کی قیمت بڑھ جائے گی تو نفع پر بیچ دوں گا )  تو آپ پر ان چاروں کی زکوۃ ادا کرنا واجب ہوگی جب تک کسی ایک کو رہائش کی نیت سے گھر تعمیر کرنے کے لیے متعین   نہ کرلیں، ان چاروں میں سے جس پلاٹ کو رہائش کی نیت سے  گھر تعمیر کرنے کے لیے متعین کر لیا تو پھر اس پر زکات نہیں آئے گی، لیکن اگر آپ نے یہ چاروں پلاٹ تجارت کی نیت سے نہیں خریدے تھے تو پھر ان میں سے کسی پر بھی زکات لازم نہیں ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 259):

’’(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) ... (و) فارغ (عن حاجته الأصلية)؛ لأن المشغول بها كالمعدوم. وفسره ابن ملك بما يدفع عنه الهلاك تحقيقاً كثيابه أو تقديراً كدينه (نام ولو تقديراً) بالقدرة على الاستنماء ولو بنائبه (فلا زكاة على مكاتب) ... (وأثاث المنزل ودور السكنى ونحوها) وكذا الكتب وإن لم تكن لأهلها إذا لم تنو للتجارة.

 (قوله: نام ولو تقديراً) النماء في اللغة بالمد: الزيادة، والقصر بالهمز خطأ، يقال: نما المال ينمي نماء وينمو نموا وأنماه الله تعالى، كذا في المغرب. وفي الشرع: هو نوعان: حقيقي وتقديري؛ فالحقيقي الزيادة بالتوالد والتناسل والتجارات، والتقديري تمكنه من الزيادة بكون المال في يده أو يد نائبه، بحر‘‘.

الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 19):

’’ وقالوا: وتشترط نية التجارة في العروض ولا بد أن تكون مقارنةً للتجارة، فلو اشترى شيئاً للقنية ناوياً أنه إن وجد ربحاً باعه لا زكاة عليه ... وفي السائمة لابد من قصد إسامتها للدر والنسل أكثر الحول، فإن قصد به التجارة ففيها زكاة التجارة إن قارنت الشراء، وإن قصد به الحمل والركوب أو الأكل فلا زكاة أصلاً‘‘.

الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 22):

’’وعلى هذا قالوا في الزكاة: لو نوى ما للتجارة أن يكون للخدمة كان للخدمة وإن لم يعمل بخلاف عكسه، وهو ما إذا نوى فيما كان للخدمة أن يكون للتجارة لا يكون للتجارة حتى يعمل؛ لأن التجارة عمل، فلا تتم بمجرد النية، والخدمة ترك التجارة فتتم بها. قالوا: ونظيره المقيم والصائم والكافر والمعلوفة والسائمة؛ حيث لا يكون مسافراً ولا مفطراً ولا مسلماً ولا سائمةً بمجرد النية، ويكون مقيماً وصائماً وكافراً بمجرد النية؛ لأنها ترك العمل، كما ذكره الزيلعي.فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201267

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں