بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پرائز بانڈ اور لاٹری کا حکم


سوال

پرائز بانڈ وغیرہ یا جو لاٹری وغیرہ کا انعام ہوتا ہے،  کیا یہ اسلام میں جائز ہے؟

جواب

پرائز بانڈ کی خرید وفروخت اور اس پر ملنے والا انعام ناجائزا ور حرام ہے،  اس میں ’’سود‘‘ اور ’’جوا‘‘ پایا جاتا ہے۔ پرائز بانڈز میں ’’سود‘‘ کا وجود تو بالکل ظاہر ہے، کیوں کہ سود کی حقیقت یہ  ہے کہ مال کا مال کے بدلے معاملہ کرتے وقت ایک طرف ایسی زیادتی مشروط ہو جس کے مقابلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو ،بعینہ یہی حقیقت بانڈز کے انعام میں بھی موجود ہے، کیوں کہ ہر آدمی مقررہ رقم دے کر پرائزبانڈز اس لیے حاصل کرتا ہے کہ اس سے قرعہ اندازی میں نام آنے پر اپنی رقم کے علاوہ  زیادہ رقم مل جائے، اور یہ زائد اور اضافی رقم سود ہے، کیوں کہ شر یعت میں ایک جنس کی رقم  کاتبادلہ اگر  آپس میں  کیا جائے تو برابری کے ساتھ لین دین کرنا ضروری ہوتا ہے، کمی بیشی کے ساتھ لین دین کرنا سود ہے،اسی طرح سود کی ایک اور حقیقت جو قرآنِ  کریم کے نازل ہونے سے پہلے بھی سمجھی جاتی تھی  وہ یہ تھی کہ قرض دے کر اس پر نفع لیاجائے ،سود کی یہ حقیقت ایک حدیث میں ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے ”کل قرض جر منفعةً فهو ربوا “  یعنی ہر وہ قرض جو نفع کمائے وہ سود ہے،  لہٰذا اس سے ثابت ہوا کہ جو زیادتی قرض کی وجہ سے حاصل ہوئی ہووہ بھی سود میں داخل ہے، اور سود کی یہ حقیقت بانڈز کے انعام پر بھی صادق آتی ہے، کیوں کہ  بانڈز کی حیثیت قرض کی ہوتی ہے،  حکومت اس قرضہ کو استعمال میں لاتی ہے اور قرضہ کے عوض لوگوں سے ایک مقررہ مقدار میں انعام کا وعدہ کرتی ہے اور پھر قرعہ اندازی کے ذریعے انعامی رقم  کے نام سے سود کی رقم لوگوں میں تقسیم کردی جاتی ہے، جو ناجائز اور حرام ہے۔

اسی طرح پرائزبانڈ ز  میں ’’جوا‘‘ بھی شامل ہے اور ’’جوا‘‘ ہر وہ معاملہ ہے جو نفع و ضرر کے درمیان دائر ہو، یعنی یہ احتمال بھی ہو کہ معمولی رقم کے عوض میں بہت سارا مال مل جائے اور یہ بھی احتمال ہو کہ کچھ نہ ملے، اور یہ ہی صورتِ حال پرائز بانڈ کی خرید و فروخت میں پائی جاتی ہے، کیوں کہ پرائز بانڈ خریدنے والے کی یہ طمع ہوتی ہے کہ اس کے بدلے ایک خطیر رقم وصول ہو جائے اب اس میں یہ احتمال بھی ہوتا ہے کہ واقعۃً بڑی رقم حاصل ہو جائے اور یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ اس کے بدلے کوئی اضافی رقم وصول نہ ہو، لہذا جب یہ معاملہ ابتدا میں خطرے میں رہا، اس لیے اس میں ’’جوا‘‘ پایا گیا جو شرعاً حرام ہے۔ 

أحكام القرآن للجصاص ط العلمية (2/ 582):

"وحقيقته تمليك المال على المخاطرة".

واضح ہوا کہ پرائز بانڈز جوئے اور سود کا مجموعہ ہے، لہذا پرائز بانڈ ز کی خریدوفروخت کرنااور اس سے ملنے والا انعام حاصل کرنا شریعت کی رو سے  ناجائز اور حرام ہے۔ اگر لاعلمی میں لے لیے ہوں تو اصل رقم وصول کرنا جائز ہوگا، اگر انعام نکل آیا تو اسے ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا ضروری ہوگا۔

انعامی لاٹری کی خریدوفروخت جوئے پرمشتمل ہونے کی وجہ سے جائزنہیں ہے، جوپیسے انعامی لاٹری میں حاصل کیے ہوں انہیں بھی بلانیتِ ثواب  غریبوں اورمحتاجوں میں صدقہ کردیناچاہیے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200962

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں