بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پب جی گیم کھیلنا


سوال

عرض ہے کہ موجودہ دور میں ہمارے درمیان ایک موبائل گیم بہت زیادہ مشہور و معروف ہے، جس کا نام PUBG (پبجی) ہے،  اس کے کھیلنے کا طریقہ کار یہ ہے، اس گیم میں 100 آدمی کارٹون کی شکل میں حصہ لیتے ہیں اور وہ 100 آدمی ہوائی جہاز کے ذریعہ ایک مخصوص جگہ پر پیراشوٹ کے ذریعہ اترتے ہیں، اور اس نقشہ میں جگہ جگہ گھر بنے ہوئے ہیں، ان گھرو ں میں الگ الگ قسم کے ہتھیار ملتے ہیں اور ان ہتھیاروں کے ذریعہ اس گیم میں ایک بندہ دوسرے بندے کو اپنی چالاکی اور عقل سے ہتھیاروں کے ذریعہ مارتا ہے اور وقت کے ساتھ گیم کے اندر سے ایک بجلی کے کرنٹ کا گھیرا آتا ہے جو بچے ہوئے کارٹون یا افراد کو ایک دوسرے سے نزدیک کرتا رہتا ہے،  جس جگہ لوگ ایک دوسرے کے سامنے آئیں  اور ایک دوسرے کے کارٹون کو مارکر جیت حاصل کریں  اور آخر میں جو 100 میں سے 1 بندہ بچتا ہے وہ جیت حاصل کرتا ہے،  اس جیت پر اس کو چکن ڑینر کے خطاب سے نوازا جاتا ہے،  جس سے جیتنے والا بندہ بہت خوشی محسوس کرتا ہے۔

اب یہ گیم شریعتِ اسلام کی نظر میں جائز ہے یا نا جائز ہے؟

جواب

پب جی (PUBG) گیم کئی طرح کے شرعی ودیگر مفاسد پر مشتمل ہے، اس کے کھیلنے میں نہ کوئی دینی اور نہ ہی کوئی دنیوی فائدہ ہے، مثلاً جسمانی ورزش وغیرہ،  یہ محض لہو لعب اور وقت گزاری کے لیے کھیلا  جاتا ہے،  جو ’’لایعنی‘‘  کام ہے، اور اس کو کھیلنے والے عام طور پر اس قدر عادی ہوجاتے ہیں کہ پھر انہیں اس کا نشہ سا ہوجاتا ہے، اور ایسا انہماک ہوتا ہے کہ وہ کئی دینی بلکہ دنیوی امور سے بھی غافل ہوجاتے ہیں، شریعتِ مطہرہ ایسے لایعنی لہو لعب پر مشتمل کھیل کی اجازت نہیں دیتی، جب کہ اس میں مزید شرعی قباحت یہ بھی ہے کہ یہ جان دار کی تصاویر پر مشتمل  ہے، نیز مشاہدہ یہ ہے کہ جو لوگ اس گیم کو بار بار کھیلتے ہیں، ان کا ذہن منفی ہونے لگتا ہے اور گیم کی طرح وہ واقعی دنیا میں بھی ماردھاڑ وغیرہ کے کام سوچتے ہیں، جس کے بہت سے واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ لہذا پپ جی اور اس جیسے دیگر گیم کھیلنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200974

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں