بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹینکی میں کبوترمرجائے تو پانی اور نمازوں کا کیا حکم ہے؟


سوال

پانی کی ٹنکی میں کبوتر مرا ہواملے تو اس پانی کے وضو  سے پڑھی گئی نمازوں کا کیا حکم ہے؟  کبوتر اگر صرف مرا ہو پھولا پھٹا نہ ہو تو اس صورت میں پانی اور نمازوں کا کیا حکم ہے؟

جواب

اگر مذکورہ ٹینکی 225 اسکوائر فٹ سے کم ہے تو اس میں کبوتر  کے گرنے اور مرنے سے اس ٹنکی کا پانی ناپاک  ہوجائے  گا،  اور اس ٹینکی کوپاک کرنے کے لیے اگر کبوتر کے اجزا پانی میں باقی ہوں تو انہیں نکالنا ضروری ہوگا، جب تک وہ اجزا موجود ہوں وہ پاک نہیں ہوگی، اس لیے اولاًمرے ہوئے کبوتریااس کے اجزاء کو نکالا جائے اور ٹینکی کو خالی کرکے تین مرتبہ دھویا جائے، اور ہر مرتبہ اس کے پانی کو نکالا جائے اور اگر یہ طریقہ  مشکل ہو تو اس ٹینکی میں ایک جانب سے پانی داخل کیا جائے اوردوسری جانب سے  بہتا چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ ٹینکی کے پانی سے بدبو ختم ہوجائے اور اس کا ذائقہ معمول کے مطابق ہوجائے۔ ایسا کرنے سے ٹینکی پاک ہو جائے گی۔

اگر کبوتر کے گر کر مرنے کا وقت معلوم ہوتو اس وقت سے جو نمازیں اس پانی سے وضو کرکے پڑھی گئی ہوں ان نمازوں کا اعادہ لازم ہوگا اور اگر وقت معلوم نہ ہوتو فقط مرنے کی صورت میں جب کہ پھولا پھٹا نہ ہو ایک دن ایک رات کی نمازوں کا اور پھول یا پھٹ گیا ہوتو  تین دن تین رات کی نمازوں کا لوٹانا ضروری ہوگا۔

اور اتنے عرصے میں اس پانی سے جو کپڑے وغیرہ دھوئے انہیں دوبارہ پاک کرنا ضروری ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإذا وجد في البئر فأرة أو غيرها ولايدرى متى وقعت ولم تنتفخ أعادوا صلاة يوم وليلة إذا كانوا توضئوا منها وغسلوا كل شيء أصابه ماؤها وإن كانت قد انتفخت أو تفسخت أعادوا صلاة ثلاثة أيام ولياليها وهذا عند أبي حنيفة رحمه الله". (1/264)

قال في التنویر:

"إذا وقعت نجاسة في بئر دون القدر الکثیر، أو مات فیها حیوان دموي، وانتفخ أو تفسخ ینزح کل مائها بعد إخراجه". (التنویر مع الشامي، باب المیاه، فصل في البئر، ۱/ ۲۱۱-۲۱۲)

"ویحکم بنجاستها مغلظة من وقت الوقوع إن علم، وإلا منذ ثلاثة أیام بلیالیها، إن انتفخ أو تفسخ استحساناً". (الدر المختار مع رد المحتار، فصل في البئر،   ۱/ ۲۱۸)

"وإن کانت قد انتفخت أو تفسخت أعادوا صلاة ثلاثة أیام ولیالیها عند أبي حنیفة". (الهدایة، کتاب الطهارة، فصل في البئر، مکتبه أشرفي دیوبند ۱/ ۴۳)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201748

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں