بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹیلیویژن فروخت کرکے اس کی رقم مدرسے میں دینا


سوال

ہمارے گھر میں ایک ٹی وی ہے جو میرے والد نے خریدا ہے اور  اب میرے والد صاحب کہہ رہے ہیں کہ  اس ٹی وی کو توڑدو ، اگر ہم یہ ٹی وی فروخت کردیں اور اس سے ملنے والی رقم مدرسہ  کو دیں دے تو کیا اس ٹی وی کو فروخت کرنے میں کوئی گناہ  تو نہیں ہے؟

جواب

اصل حکم تو یہی ہے کہ نہ تو ٹی وی  گھر میں رکھنا جائز ہے اور نہ ہی ٹی وی کی خرید و فروخت جائز ہے ، اگر کوئی آدمی خرید چکا ہو اور اب اسے ٹی وی دیکھنے کے گناہ کا احساس ہوا ہو اور اللہ تعالیٰ نے اسے اس گناہ کبیرہ سے توبہ کی توفیق دے دی ہو تو اب اگر وہ اس گناہ سے جان چھڑانے کے لیے  ٹی وی  کسی اور  کو بیچے گا تو وہ دوسرا شخص اس گناہ میں مبتلا ہوگا اور یہ پہلا شخص اس کے اس گناہ کا ذریعہ بننے کی وجہ سے معاون اور مددگار ہوگا، اور گناہ کے کاموں میں معاون بننا جائز نہیں ہے۔

چنانچہ اسے چاہیے کہ بجائے ٹی وی بیچنے کے  اس معصیت کے آلہ کو توڑ کر ضائع کردے۔ یا  ٹی وی کوکھول کر تمام پرزے الگ الگ کردے، پھر جو پرزے کسی مباح کام میں استعمال ہو سکتے ہوں تو ان پرزوں کو نکال کر الگ سے ان کو بیچنا جائز ہوگا، اور جو پرزے صرف معصیت میں ہی استعمال ہوتے ہوں انہیں توڑدے۔  اسی طرح جس شخص سے یہ ٹی وی خریدا تھا اس کو قیمتِ خرید یا اس سے کم پر واپس بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن قیمتِ خرید سے زیادہ پر بیچ کر منافع حاصل کرنا جائز نہیں ہوگا، اسی طرح قیمتِ خرید پر کسی کافر کو بھی فروخت کر نا جائز  ہے۔ نیز اگر ٹی وی بصورتِ اسکرین ہو تو ایسے آدمی پر اس کو فروخت کرنا جائز ہوگا جس کے بارے میں یہ بات معلوم ہو کہ وہ اسے کسی جائز کام میں استعمال کرے گا، مثلاً:  ہوائی اڈوں (ایئر پورٹ) وغیرہ پر سامان کی چیکنگ اور ہوائی جہاز کے نظام الاوقات بتلانے یا بلاتصویر اعلانات کرنے کے لیے استعمال کرنا،  اسٹاک ایکسچینج میں حصص  کی تفصیلات وغیرہ دکھانے کے لیےاستعمال کرنا اور جن صورتوں میں ٹی وی بیچنا منع لکھا گیا ہے ان صورتوں میں بیچنے کی صورت میں اس  رقم کا استعمال کرنا بھی منع ہے۔ لہٰذا آپ مذکورہ تفصیل کے مطابق عمل کریں، کوئی ایسی صورت اختیار نہ کریں جس میں اسے بیچنا اور حاصل شدہ رقم استعمال کرنا جائز نہ ہو۔ اور بیچنے کی جو جائز صورتیں لکھی گئی ہیں ان میں اس رقم کا استعمال کرنا بھی جائز ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 391):

"(و) جاز (بيع عصير) عنب (ممن) يعلم أنه (يتخذه خمراً)؛ لأن المعصية لاتقوم بعينه بل بعد تغيره، وقيل: يكره لإعانته على المعصية، ونقل المصنف عن السراج والمشكلات: أن قوله ممن أي من كافر أما بيعه من المسلم فيكره، ومثله في الجوهرة والباقاني وغيرهما، زاد القهستاني معزياً للخانية: أنه يكره بالاتفاق.

(بخلاف بيع أمرد ممن يلوط به وبيع سلاح من أهل الفتنة)؛ لأن المعصية تقوم بعينه، ثم الكراهة في مسألة الأمرد مصرح بها في بيوع الخانية وغيرها، واعتمده المصنف على خلاف ما في الزيلعي والعيني وإن أقره المصنف في باب البغاة. قلت: وقدمنا ثمة معزياً للنهر أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه تحريماً وإلا فتنزيهاً، فليحفظ توفيقاً". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200219

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں