بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹوپی اتارنے کا حکم


سوال

کیا ٹوپی اتاری جا سکتی ہے؟ اگر آدمی ٹوپی اتار دے اور صرف نماز کے وقت پہنے تو کیا گناہ گار تو نہیں ہو گا؟کیا ٹوپی پہننا سنتِ مؤکدہ ہے یا غیر مؤکدہ؟

جواب

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمومی اَحوال میں عمامہ یا ٹوپی کے ذریعہ سر مبارک کو ڈھانپا کرتے تھے؛ اس لیے سر پر عمامہ یا ٹوپی پہنناسننِ زوائد میں سے ہے جس کا درجہ مستحب کا ہے۔ اور سر کاڈھانپنالباس کا حصہ ہے۔صحابہ کرام علیہم الرضوان اور صلحائے امت کا بھی یہی معمول تھا۔بعض صحابہ کرام کا ٹوپی یا عمامہ نہ پہننا احادیث میں مذکور ہے، وہ   تنگ دستی کے زمانے کی بات ہے، جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہر ایک کے پاس دو کپڑے بھی نہیں ہوتے تھے۔

کبھی کبھار ننگے سرہوجاناگناہ نہیں ، البتہ مستقل طور پرننگے سررہنا شرعاً ناپسندیدہ اور خلافِ ادب ہے، اور ننگے سر رہنے کو معمول اور فیشن بنالینااسلامی تہذیب کے خلاف ہے۔

زاد المعاد في هدي خير العباد (1/ 130):
"فصل في ملابسه صلى الله عليه وسلم
كانت له عمامة تسمى: السحاب كساها علياً، وكان يلبسها ويلبس تحتها القلنسوة. وكان يلبس القلنسوة بغير عمامة، ويلبس العمامة بغير قلنسوة".

مفتی رشیداحمد گنگوہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

’’سر برہنہ ہونا احرام میں ثابت ہے ،سوائے احرام کے بھی احیاناً ہوگئے ہیں ،نہ کہ دائماً چلتے پھرتے تھے‘‘۔(فتاوی رشیدیہ ،ص:590)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200419

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں