بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹخنے کھلے رکھنے کی تحدید


سوال

ٹخنوں سے اوپر شلوار کا کیا حکم ہے؟بیش تر  احادیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ پر بہت سے لوگ پنڈلیوں تک شلوار اوپر رکھتے ہیں،  ٹخنوں تک شلوار رکھ سکتے ہیں؟ اور پاجامہ جو کہ  ٹخنوں سے نیچے رہتا ہے؛ تاکہ سردی نہ لگے اور جراب بھی تو ٹخنے ڈھانپ لیتی ہے؟

جواب

سنن أبي داؤدمیں ہے:

"4093 - حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ عَنِ الإِزَارِ، فَقَال: عَلَى الْخَبِيرِ سَقَطْتَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِزْرَةُ الْمُسْلِمِ إِلَى نِصْفِ السَّاقِ، وَلَا حَرَجَ - أَوْ لَا جُنَاحَ - فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْكَعْبَيْنِ، مَا كَانَ أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ فَهُوَ فِي النَّارِ، مَنْ جَرَّ إِزَارَهُ بَطَرًا لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ»". (كتاب اللباس، بَابٌ فِي قَدْرِ مَوْضِعِ الْإِزَارِ، ٤ / ٥٩، رقم الحديث: ٤٠٩٣، المكتبة العصرية، صيدا، بيروت)

ترجمہ:  عبد الرحمن کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ازار کی بابت سوال کیا، تو انہوں نے کہا کہ تم نے ایک باخبر سے دریافت کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مومن کی تہہ بند نصف پنڈلی تک رکھنا بہتر ہے، اور نصف پنڈلی اور ٹخنوں کے درمیان ہو تو کوئی حرج نہیں، یا فرمایا کہ کوئی گناہ نہیں، اور جو ٹخنوں سے نیچے ہو تو وہ آگ میں ہے، (یعنی اس کا نتیجہ جہنم ہے)، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس آدمی کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھے گا، جو ازراہِ فخر و تکبر اپنی ازار گھسیٹ کے چلے گا۔

سنن أبي داؤد کی دوسری روایت میں ہے:

"4095 - حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ أَبِي الصَّبَّاحِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي سُمَيَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: «مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْإِزَارِ، فَهُوَ فِي الْقَمِيصِ»". (كتاب اللباس، بَابٌ فِي قَدْرِ مَوْضِعِ الْإِزَارِ، ٤ / ٦٠ ، رقم الحديث: ٤٠٩٥، المكتبة العصرية، صيدا، بيروت)

ترجمہ:  یزید بن ابی سمیہ فرماتے ہیں کہ: میں نے ابن عمر رضی اللہ عنمہا کہ یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ ازار ( تہبند) کے حوالے سے فرمایا ہے، یہ قمیص کا بھی حکم ہے۔

شمائل ترمذی، باب ماجاء فی صفۃ ازار رسول اللہ ﷺ میں ہے:

"عن حذیفة بن الیمان قال: أخذ رسول الله ﷺ بعضلة ساقي أو ساقه، فقال: هذا موضع الإزار، فإن أبیت فإسفل، فإن أبیت فلاحقّ للإزار في الکعبین".

ترجمہ: حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے میری یا اپنے پنڈلی کے بھرے ہوئے گوشت والی جگہ پکڑی اور فرمایا: یہ تہہ بند کی جگہ ہے، اور اگر اس جگہ نہ رکھو تو اس سے کچھ نیچے رکھ لو، اگر اس جگہ بھی نہیں تو ٹخنوں میں تہہ بند کا کوئی حق نہیں، یعنی اِزار سے ٹخنے چھپانے کا ہرگز حق نہیں۔

سنن الکبری للنسائی میں ہے:

"عن الأشعث بن سليم قال: سمعت عمتي تحدث عن عمها أنه كان بالمدينة يمشي فإذا رجل قال: «ارفع إزارك فإنه أبقى وأتقى»، فنظرتُ فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إنما هي بردة ملحاء؟ قال: «أما لك فيّ أسوة»! فنظرت فإذا إزاره على نصف الساق". ( ٥ / ٤٨٤، رقم: ٩٦٨٣)

یعنی ایک صحابی (عبید بن خالد محاربی) روایت کرتے ہیں وہ مدینہ منورہ میں اِزار نیچے تک لٹکائے جارہے تھے کہ اچانک (ان کے پیچھے موجود) کسی نے انہیں کہا: اپنا اِزار اوپر کرو؛ کیوں کہ یہ زیادہ حفاظت اور تقویٰ کا ذریعہ ہے، (یا یہ کپڑے کے زیادہ باقی رہنے اور تقویٰ کا ذریعہ ہے) وہ کہتے ہیں کہ میں نے (مڑ کر) دیکھا تو وہ (نصیحت کرنے والے) رسول اللہ ﷺ تھے، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ یہ تو ’’بردہ ملحاء‘‘ ہے، (یعنی یہ تو معمولی کپڑا ہے، اگر گندا بھی ہو تو کوئی حرج نہیں، یا وہ یہ سمجھے کہ اوپر کرنے کا مطلب اسے کاٹ کر چھوٹا کرنا ہے تو کہا کہ یہ سفید اور کالی دھاری دھار چادر ہے، اسے یوں کاٹنا مناسب نہیں ہے، یا یہ مطلب ہے کہ انہوں نے عرض کیا کہ حضورﷺ! اس چادر کو پہننے کی وضع ہی یہی ہے، یہی اس کا انداز ہے، خلاصہ ان تمام تاویلات کا یہ ہے کہ اس پہننے میں تکبر وغیرہ کی برائی بظاہر نہیں ہے) رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: کیا آپ کے لیے میری ذات میں کامل نمونہ نہیں ہے!؟  (یعنی میرا طریقہ کیا ہے، آپ کو تو بس یہ دیکھنا چاہیے) وہ (عبید بن خالد)  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے اِزار کی طرف دیکھا تو وہ آپ ﷺ کی آدھی پنڈلی تک تھا۔

پس مذکورہ بالا تمام  روایات سے معلوم ہوا کہ مردوں کے لیے تہہ بند، پتلون، شلوار، قمیص میں اولی یہ ہے کہ نصف پنڈلی تک ہو، اور نصف پنڈلی سے نیچے اور ٹخنون  کے اوپر تک رکھنے کی بھی بلاکراہت اجازت ہے، تاہم مردوں کے لیے ٹخنے ڈھانپنا خواہ تہہ بند سے ہو یا شلوار، پتلون یا قمیص سے ہو جائز نہیں۔

لہٰذا اگر سائل کی مراد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ٹخنے سے اوپر شلوار رکھنے سے منع فرمایا ہے، تو یہ بات درست نہیں ہے، رسول اللہ ﷺ نے ٹخنے سے اوپر شلوار یا تہہ بند رکھنے سے نہیں، بلکہ ٹخنے سے نیچے رکھنے سے منع بھی فرمایا، اور آپ ﷺ کا ساری زندگی معمول بھی یہی تھا کہ آپ ﷺ تہہ بند نصف پنڈلی تک رکھا کرتے تھے۔

جہاں تک سائل کے اس شبہے کا تعلق ہے کہ اگر شلوار یا تہہ بند وغیرہ سے ٹخنے چھپانا منع ہے تو موزے وغیرہ پہننے میں بھی تو ٹخنے چھپتے ہیں! اس کا جواب یہ ہے کہ نفسِ ٹخنے کھولنا مقصود نہیں ہے، بلکہ لباس کی یہ وضع (شلوار، تہہ بند، پاجاما اور پتلون وغیرہ کو اتنا لٹکانا کہ ٹخنے چھپ جائیں) سنتِ رسول ﷺ کے خلاف ہونے کے ساتھ متکبرین کی وضع ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص ایسا لباس پہنے اور یہ کہے کہ مجھ میں تکبر نہیں ہے تو بھی یہ درست نہیں ہے، کیوں کہ ٹخنوں سے اوپر یا نصف پنڈلی تک نہ رکھنے سے دل میں عار اور شرم کا محسوس ہونا ہی اس بات کی نشانی ہے کہ اسے معیوب سمجھتاہے، جب کہ یہ رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔ نیز یہ حکم مردوں کے لیے ہے، خواتین کے اَحکام میں ستر بنیادی حیثیت رکھتاہے، اس لیے خواتین کے لیے ٹخنے کھولنے کا حکم نہیں ہے۔

اور چمڑے کے موزے  پہننا خود رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، گویا ایک طرف رسول اللہ ﷺ نے چمڑے کے موزے پہن کر ٹخنے مبارک چھپائے بھی اور دوسری طرف تہہ بند نصف پنڈلی تک رکھ کر ٹخنے کھولے بھی رکھے۔ رسول اللہ ﷺ کا اسوۂ حسنہ جب ہمارے سامنے ہوگا تو  یہ الجھن پیدا ہی نہیں ہوگی۔

امید ہے کہ اس تفصیل کے بعد سائل کی تشفی ہوجائے گی۔

بہرحال سردی سے بچنے کے لیے موزے، یا خفین کا استعمال کیا جائے، اس غرض کے لیے پاجاما یا  شلوار سے ٹخنے نہ چھپائے جائیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200583

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں