بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وضو کے دوران وضو توڑنے والی چیز کا پیش آجانا / جمعرات کو صدقہ وخیرات کرنا


سوال

1۔۔ اگر آخری مرحلہ پر وضو ٹوٹ جائے  تو کن اعضا کا دھونا فرض ہے؟

2۔۔ کیا صدقہ اور خیرات جمعرات کےدن کرنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے یا عام دنوں کی طرح ہے؟

جواب

1۔۔ اگر  وضو کرنے کے دوران وضو توڑنے والی کوئی چیز پیش آگئی مثلاً ہوا خارج ہوگئی  تو دوبارہ شروع سے وضو کرنا لازم ہوگا، البتہ اگر کوئی شخص شرعی معذور ہو تو اس کے لیے  دوبارہ وضو کرنا لازم نہیں ہے۔(شرعی معذور کا مطلب یہ ہے کہ  کسی شخص کو  مثلاً ہوا خارج ہونے یا قطروں وغیرہ کی بیماری اتنی زیادہ ہو کہ اس کو اتنا وقت نہ ملے کہ  وہ اس میں وضو کرکےاس بیماری سے   وضو ٹوٹے  بغیر چار  رکعت نماز پڑھ سکے اور کسی نماز کا مکمل وقت اسی حالت میں گزر جائے تو ایسا شخص شرعاً معذر کے حکم میں ہوتا ہے،شرعی  معذور کا حکم یہ ہے کہ ہر نماز کا وقت داخل ہونے  کے بعد ایک مرتبہ وہ  وضو کرلے اور نماز پڑھے، اگر وضو کے بعد  جس بیماری کی وجہ سے معذور کے حکم میں ہوا ہے  کے  علاوہ کوئی اور وضو ٹوٹنے والی چیز  صادر ہو تو دوبارہ وضو کرنا ہوگا، ورنہ ایک نماز کے وقت میں دوبارہ  وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔خواہ وضو کے دوران ہی یہ عذر باربار پیش آئے۔)

الفقه على المذاهب الأربعة (1/ 49):
’’ومنها: أن لا يوجد من المتوضئ ما ينافي الوضوء مثل أن يصدر منه ناقض للوضوء في أثناء الوضوء. فلو غسل وجهه ويديه مثلاً ثم أحدث فإنه يجب عليه أن يبدأ الوضوء من أوله. إلا إذا كان من أصحاب الأعذار‘‘. 

2۔۔  نفسِ جمعرات کی فضیلت تو  روایات سے ثابت ہے، آپ ﷺ پیر اور جمعرات کے دن روزہ رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کے حضور اعمال پیش ہوتے ہیں، اس لیے میں چاہتاہوں کہ میرا عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوتو میں روزے سے ہوں، اسی طرح جمعرات میں زیارتِ قبور بھی ثابت ہے، لیکن جمعرات میں صدقہ وخیرات کی مستقل فضیلت وارد نہیں ہے، اور صدقہ وخیرات کرنے کے لیےشریعت میں کسی خاص دن اور خاص ہیئت کی تخصیص نہیں ہے، جس دن بھی اللہ کے نام پر صدقہ وخیرات کیا جائے ثواب اور اجر کا باعث ہے، لہٰذا اس میں صدقہ کرنے کو زیادہ ثواب کا ذریعہ سمجھنا اور اس کا التزام کرنا  شرعاً درست نہیں ہے۔ 

الاعتصام للشاطبی میں ہے:

’’ومنها: (ای من البدع)  التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته. (الاعتصام للشاطبي (ص: 53) الباب الأول تعريف البدع وبيان معناها وما اشتق منه لفظا، ط: دار ابن عفان، السعودية)۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200912

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں