اگر کسی کا والد یا کوئی اور عزیز فوت ہو جائے تو اس کی قضا نمازیں اس کا کوئی رشتہ دار اس کی طرف سے ادا کر سکتا ہے۔ اگر کر سکتا ہے تو کیا طریقہ ہو گا؟ دوسرا فوت شدہ کی قضا نمازوں کا صدقہ کس طرح دیا جاسکتا ہے؟
کوئی بھی آدمی دوسرے کی طرف سے قضا نمازیں ادا نہیں کرسکتا اور نہ ہی ادا کرنے سے وہ ادا ہو سکتی ہیں، چاہے دوسرا آدمی زندہ ہو یا فوت ہو چکا ہو، البتہ فوت شدہ آدمی کے ذمہ واجب الادا نمازوں کا فدیہ ادا کیا جاسکتا ہے، چنانچہ اگر کسی آدمی کا انتقال ہوجائے اور اس کے ذمہ قضا نمازیں باقی ہوں تو اگر اس نے اپنی قضا نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہو تو ورثاء پر لازم ہے کہ اس کے ایک تہائی ترکہ میں سے فی نماز ایک فدیہ ادا کریں، لیکن ایک تہائی سے زائد سے فدیہ ادا کرنا واجب نہیں ہوگا، اسی طرح اگر اس نے وصیت ہی نہ کی ہو تو بھی ورثاء پر فدیہ ادا کرنا لازم نہیں، البتہ ورثاء کے از خود ادا کرنے سے ادا ہوجائے گا اور میت پر بڑا احسان ہوگا ۔
ایک نماز کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے اور روزانہ وتر کے ساتھ چھ نمازیں ہیں تو ایک دن کی نمازوں کے فدیے بھی چھ ہوئے، اور ایک صدقہ فطر تقریباً پونے دو کلو گندم یا آٹا یا اس کی قیمت ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 597):
"(العبادة المالية) كزكاة وكفارة (تقبل النيابة) عن المكلف (مطلقاً) عند القدرة والعجز ولو النائب ذمياً؛ لأن العبرة لنية الموكل ولو عند دفع الوكيل (والبدنية) كصلاة وصوم (لا) تقبلها (مطلقاً، والمركبة منهما) كحج الفرض (تقبل النيابة عند العجز فقط)".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 72):
"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر)". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144106200284
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن