بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ورثاء میں سے کسی ایک کے لیے وصیت کرنا


سوال

مجھے معلوم یہ کرنا ہے کہ اگر مرنے والے نے اپنی زندگی میں اپنی چیزیں اپنے ہاتھ سے اپنی اولاد میں تقسیم کردی ہوں، اور باقی سامان جیسے گھر کاروبار وغیرہ کی وصیت زبانی کردی ہو ، 2 لوگوں کو گواہ بناکر  تو ان کے مرنے کے بعد ان کی متروکہ املاک شرع کے مطابق تقسیم ہوگی یا جیسے وصیت کی تھی اس کے مطابق؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے انسان کو اپنی زندگی میں  اپنے مال میں ہر جائز تصرف کا پورا حق دیا ہے اور  اپنے ورثاء کے علاوہ کے لیے  ایک تہائی مال کے حوالہ سے  وصیت کرنے کا محدود اختیار بھی  دیا ہے  جب کہ ورثاء کا حق خود مقرر کردینے کی وجہ سے  ان کے حق میں وصیت کے اختیار کو بزبانِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (لاَ وَصِيّةَ لِوَارِثٍ ...الحديث)  سلب کرلیا گیا ہے، البتہ وارث کے حق میں کی جانے والی وصیت کو  عاقل وبالغ  ورثاء  کی اجازت پر موقوف کردیاہے،  پس اگر کوئی شخص وصیت میں محدود اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے وصیت کرتا ہے تو وہ وصیت شرعاً نافذ العمل نہیں ہوتی، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مرحوم نے از روئے شرع اپنے گھر و کاروبار کے حوالہ سے جائز وصیت کی ہو تو وہ ان کی متروکہ منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کے ایک تہائی حصہ سےپوری کی جائے گی ۔ تاہم اگر انہوں نے اپنے حدود سے تجاوز کرتے ہوئے وصیت کی ہو تو وہ شرعاً نافذ العمل نہیں ہوگی اور مرحوم کی متروکہ تمام جائیداد حصص شرعیہ کے تناسب سے ان کے شرعی ورثاء میں تقسیم ہوگی، الا یہ کہ تمام ورثاء عاقل وبالغ ہوں اور دلی خوشی  سے اس وصیت کو تسلیم کریں ،کسی کی طرف سے اس پر عدمِ رضا کا شائبہ نہ ہو۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202224

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں