بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

وراثت کی تقسیم بیس سال بعد ہوتو اس میں کون سی قیمت کا اعتبار ہوگا؟


سوال

بھائی، والدین کے انتقال کے  20سال بعدبہنوں کو والدین کی وراثت میں حصہ کی رقم والدین کی وفات کے وقت کے مطابق ادا کریں تو کیا حکم ہے؟

جواب

کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے کل ترکہ میں اس کے تمام ورثاء کا حق متعلق ہوجاتا ہے اور وہ سب اس میں اپنے شرعی حصوں کے تناسب سے شریک ہوجاتے ہیں، اور وہ ترکہ ان سب میں شرکتِ ملک کے طور پر مشترک ہوجاتا ہے، لہذا اگر والدین کے انتقال کے بعد طویل عرصہ بعد  ترکہ تقسیم ہورہا ہوتو  ترکہ کی موجودہ قیمت کے حساب سے ہی تقسیم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي اهـ".

(فتاوی شامی،(4/325) کتاب الشرکۃ، فصل فی الشرکۃ الفاسدۃ،ط:  سعید)

وفیہ ایضاً:

"[تنبيه] يقع كثيراً في الفلاحين ونحوهم أن أحدهم يموت فتقوم أولاده على تركته بلا قسمة ويعملون فيها من حرث وزراعة وبيع وشراء واستدانة ونحو ذلك، وتارةً يكون كبيرهم هو الذي يتولى مهماتهم ويعملون عنده بأمره وكل ذلك على وجه الإطلاق والتفويض، لكن بلا تصريح بلفظ المفاوضة ولا بيان جميع مقتضياتها مع كون التركة أغلبها أو كلها عروض لاتصح فيها شركة العقد، ولا شك أن هذه ليست شركة مفاوضة، خلافاً لما أفتى به في زماننا من لا خبرة له، بل هي شركة ملك كما حررته في تنقيح الحامدية.

ثم رأيت التصريح به بعينه في فتاوى الحانوتي، فإذا كان سعيهم واحداً ولم يتميز ما حصله كل واحد منهم بعمله يكون ما جمعوه مشتركاً بينهم بالسوية وإن اختلفوا في العمل والرأي كثرةً وصواباً كما أفتى به في الخيرية، وما اشتراه أحدهم لنفسه يكون له ويضمن حصة شركائه من ثمنه إذا دفعه من المال المشترك، وكل ما استدانه أحدهم يطالب به وحده".(فتاوی شامی(4/ 307 ) کتاب الشرکۃ، مطلب فیما یقع کثیرا فی الفلاحین مما صورتہ شركةمفاوضة، ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201203

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں