بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وراثت میں ملنے والی سود اور حرام رقم تقسیم ہوگی یا نہیں؟


سوال

میرے والد کا تئیس رمضان بمطابق انتیس جولائی 2016ء انتقال ہوا ہے، میرے والد کا 2005 ء سے ایک سیونگ اکاونٹ تھا، جس کا کل بیلنس دو لاکھ بیس ہزار ہے۔ اب یہ مال وراثت ہے، تو کیا ہم اس مال کو وراثت میں تقسیم کر سکتے ہیں؟ کیا ہم یہ کر سکتے ہیں کہ 2005ء سے اس اکاونٹ پر ملنے والے منافع کا حساب کر کے جس قدر نفع ہے وہ فقرا میں تقسیم کر دیں؟

ایک اور سوال یہ ہے کہ میرے والد کے پاس اسلامی سیونگ سرٹیفیکیٹس بھی تھے،ہمیں معلوم نہیں کہ وہ ان کی زکوۃ نکالتے تھے یا نہیں؟ کیا ہم ان سرٹیفیکیٹس پر لازم ہونے والی زکوۃ کو حساب کر کے نکالنے کے پابند ہیں؟

میرا تیسرا سوال یہ ہے کہ میرے والد جس کمپنی میں کام کیا کرتے تھے اس کمپنی کی لائف انشورنس پالیسی تھی جو لازمی تھی، البتہ اس انشورنس کے لیے تنخواہ سے کٹوتی نہیں ہوا کرتی تھی، کیا لائف انشورنس پالیسی سے ملنے والی رقم ہم وراثت میں تقسیم کر سکتے ہیں؟

 

جواب

1: سیونگ اکاونٹ میں جس قدر رقم مرحوم نے  جمع کروائی تھی، اس قدر رقم حاصل کر کے وراثت میں تقسیم ہو گی، اس پر ملنے والا منافع  وصول ہی نہ کیا جائے یا وصول کیا جائے تو اس کا بغیر ثواب کی نیت کے فقرا میں صدقہ کرنا لازم ہے۔ منافع کے صدقہ کرنے میں تمام ورثاء اپنے اپنے حصے کے مطابق حاصل ہونے والے منافع کو صدقہ کرنے کے پابند ہوں گے۔

2: سیونگ سرٹیفیکیٹس بھی جس مالیت پر خریدی گئی تھیں وہ ورثا میں تقسیم ہوگی، اس سے زائد منافع کا ہر وارث پر اپنے اپنے حصے کے مطابق صدقہ کرنا   لازم ہے۔البتہ اس مالیت پر لازم ہونے والی زکوۃ کے ادا کرنے کے ورثا پابند نہیں ہوں گے۔

3:اس لائف انشورنس پالیسی میں جس قدر رقم کمپنی نے جمع کروائی تھی، اس قدر رقم ورثا میں تقسیم ہوگی، اس سے زائد رقم بھی ہر وارث کو اس کے حصے کے مطابق بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کرنا لازم ہے۔


فتوی نمبر : 143710200033

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں