بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وراثت سے متعلق ایک سوال کا جواب


سوال

میرا سوال وراثت سے متعلق ہے، قرآن و سنت کی روشنی میں جواب درکار ہے۔ اس وراثت سے متعلق جتنے رشتے سامنے آئیں گے، وہ سب سگے ہیں، سوال میں سگے کا لفظ نہیں لکھوں گا تاکہ تکرار نہ ہو ، میرے تایا 1993 میں فوت ہوگئے، ورثاء میں ایک بیوہ اور دو بیٹیاں تھیں، اور ان کے پاس ایک مکان تھا، وہ مکان اب بھی موجود ہے، میرے تایا کے ایک بھائی یعنی میرے مرحوم والد صاحب اور چار بہنیں تھیں، یہ سب اب فوت ہو چکے ہیں۔میری بڑی پھوپھی نے میرے والد صاحب اور اپنی بہنوں کو میرے تایا کے فوت ہونے پر اکٹھا کیا اور ان سب سے درخواست کی کہ اپنی بھتیجیوں کے حق میں سب دست بردار ہوجائیں، یہ سب زبانی بات ہوئی تھی، تحریر میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ میں اب یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس مکان میں ان کے بھتیجوں کا یعنی میرا اور میرے بھائی کا کوئی حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ جو لوگ فوت ہوگئے ان کی ترتیب اس طرح ہے:

1۔میرے تایا 1993 میں فوت ہوگئے ، نرینہ اولاد کوئی نہیں۔ 2۔میری تائی 1994میں فوت ہوئیں، دو بیٹیاں رہ گئیں۔ 3۔ میرے والد صاحب 2006 میں فوت ہوئے۔ ان کی اولاد میں میں اور میرا بھائی۔ 4۔ بڑی پھوپھی  2007 میں، ان کی نرینہ اولا میں دو بیٹے۔ 5۔ 2008 میں دوسری پھوپھی، نرینہ اولاد میں تین بیٹے۔ 6۔ 2011 میں تیسری پھوپھی۔ اور میرے تایا کی ایک بیٹی۔ اب ایک ہی بیٹی بچی ہے۔ 7۔2016 میں آخری پھوپھی، کوئی اولاد نہیں ۔

اب مجھے آپ سے اس کا جواب درکار ہے، میں اتنا تو جانتا ہوں کہ نرینہ اولاد نہ ہونے کی صورت میں میرے تایا کے مکان میں ان کی بیٹیوں کا حصہ نکال کر میرے والد صاحب اور پھوپھیوں کا حصہ بنتا تھا، مگر مکان کی تقسیم کسی وجہ سے رکوا دی گئی۔ اس میں زیادہ کون قصور وار ہے؟ میں جانتا تو ہوں، مگر اب چوں کہ سب فوت ہو گئے ہیں؛ اس لیے اس کا تذکر ہ مناسب نہیں سمجھتا۔لیکن اب جب کے سب فوت ہوگئے ہیں اور جائیداد پر اب میری تایا زاد بہن کے شوہر کاقبضہ ہے۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس مکان میں اپنا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ جو بھی جواب بنتا ہو ،مجھے مطلع ضرور کر دیجیے، تاکہ  اگر ہے تو مقدمہ کروں، اور اگر نہیں تو شیطان کے شر سے بچ جاؤں۔

جواب

آپ کے تایا کی میراث میں آپ کے والد کا حصہ 94ء6 فیصد  بنتا ہے، پھر  آپ کے والد کے انتقال کے بعد یہ حصہ آپ کے والد کے ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں آپ اور آپ کے بھائی بھی شامل ہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201361

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں