بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وتر کے بعد نفل پڑھنا اور شوال کے چھ روزوں کا حکم


سوال

ایک مفتی صاحب سے چند باتیں سنی جو آج تک کسی عالم سے نہ سنی اس لئے آپ کی خدمت میں یہ سوال عرض ہے کہ اس بارے میں رہنمائی فرمائے کہ اصل مسئلہ کیا ہے:

1-  وہ فرماتے ہیں کہ 8 رکعات تراویح اور 12 رکعات تہجد ہے اور اس کے بعد 3 رکعات وتر ہے ۔ وتر کے بعد کوئی نماز نہیں, وتر کے بعد تہجد پڑھنے والا گناہ گار ہے . ایک حدیث پر بہت زور دیتے ہیں کہ وترکے بعد کوئی نماز نہیں ۔

2- شوال کے روزے رکھنا بدعت ہے ۔

اور وہ اپنے کئی بیانات میں مولانا طارق جمیل صاحب کو زندیق کہتے ہیں اور ان کی تذلیل کرتے ہیں۔

جواب

قدیم اور موجودہ جمہور علماءِ کرام کا موقف ان مسائل میں مذکورہ مفتی صاحب سے مختلف ہے، اس کے مطابق سوال کا شرعی حکم درج ذیل ہے  :

1۔۔ پورے سال (رمضان المبارک ہو یا غیر رمضان) وتر کی نماز کے بعد تہجد کی نماز پڑھنا جائز ہے، اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے، اگر کوئی شخص عشاء کی نماز پڑھ کر سوگیا پھر رات کو بیدار ہونے کے بعد تہجد کی نماز پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے، تہجد کی نماز بھی صحیح ہوگی اور ثواب بھی ملے گا۔ البتہ رمضان کے علاوہ بقیہ ایام میں مستحب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو اعتماد ہو کہ وہ رات میں سونے کے بعد تہجد کے لیے بیدار ہوجائے گا تو اسے چاہیے کہ وہ تہجد کی نماز کے بعد وتر کی نماز ادا کرے؛ کیوں کہ حدیث میں رات کی آخری نماز وتر پڑھنے کا ذکر ہے۔ لیکن اس کا درجہ مستحب ہے، یعنی ایسا کیا تو ثواب ہوگا، نہ کیا تو کوئی گناہ نہیں ہوگا، چناں چہ بعض احادیث میں وتر کے بعد بھی نفل نماز پڑھنے کا ثبوت موجود ہے۔ اور جن لوگوں کو رات کے آخری حصہ میں بیدار ہونے کا یقین نہ ہو ان کو چاہیے کہ وہ وتر پڑھ کر سویا کریں، پھر جب بیدار ہوں تو تہجد بھی پڑھ لیں۔ اور رمضان المبارک میں وتر کی نماز جماعت سے ہی پڑھنا چاہیے، اس کے بعد پوری رات صبح صادق تک جتنے چاہیں نوافل ادا کرسکتے ہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 369):
"(و) تأخير (الوتر إلى آخر الليل لواثق بالانتباه) وإلا فقبل النوم، فإن فاق وصلى نوافل والحال أنه صلى الوتر أول الليل فإنه الأفضل.
(قوله: وتأخير الوتر إلخ) أي يستحب تأخيره، لقوله صلى الله عليه وسلم: «من خاف أن لايوتر من آخر الليل فليوتر أوله، ومن طمع أن يقوم آخره فليوتر آخر الليل، فإن صلاة آخر الليل مشهودة وذلك أفضل» ). رواه مسلم والترمذي وغيرهما. وتمامه في الحلية. وفي الصحيحين: «اجعلوا آخر صلاتكم باللیل وتراً» والأمر للندب بدليل ما قبله، بحر.
(قوله: فإن فاق إلخ) أي إذا أوتر قبل النوم ثم استيقظ يصلي ما كتب له، ولا كراهة فيه بل هو مندوب، ولايعيد الوتر، لكن فاته الأفضل المفاد بحديث الصحيحين، إمداد.
ولايقال: إن من لايثق بالانتباه فالتعجيل في حقه أفضل، كما في الخانية. فإذا انتبه بعدما عجل يتنفل ولاتفوته الأفضلية؛ لأنا نقول: المراد بالأفضلية في الحديث السابق هي المترتبة على ختم الصلاة بالوتر وقد فاتت، والتي حصلها هي أفضلية التعجيل عند خوف الفوات على التأخير، فافهم وتأمل".

2۔۔  شوال کے چھ روزے رکھنا مستحب ہے، احادیثِ مبارکہ میں  اس کی  فضیلت وارد ہوئی ہے، چناں چہ رسول ﷲصلی ﷲعلیہ وسلم کاارشادِ گرامی صحیح سندکے ساتھ حدیث کی مستندکتابوں میں موجودہے:     

’’عن أبي أیوب عن رسول اﷲﷺ قال: من صام رمضان ثم أتبعه ستًّا من شوال فذاک صیام الدهر‘‘. رواه الجماعة إلا البخاري والنسائي‘‘.  ( اعلاء السنن لظفر احمد العثمانی -کتاب الصوم - باب استحباب صیام ستۃ من شوال وصوم عرفۃ -رقم الحدیث ۲۵۴۱- ط: ادارۃ القرآن کراچی )

   ترجمہ:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے اورپھرشوال کے چھ روزے  رکھے تویہ ہمیشہ (یعنی پورے سال)کے روزے شمارہوں گے‘‘۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآنِ کریم کے وعدہ کے مطابق ہر نیکی کا بدلہ کم از کم دس گنا ملتا ہے، گویا رمضان المبارک کے ایک ماہ کے روزے دس ماہ کے روزوں کے برابر ہوئے، اور شوال کےچھ روزے ساٹھ روزوں کے برابر ہوئے، جو دو ماہ کے مساوی ہیں، اس طرح  رمضان کے ساتھ شوال کے روزے رکھنے والاگویا  پورے سال روزہ رکھنے والا ہوجاتا ہے۔

شوال کے چھ روزے  یکم شوال یعنی عید کے دن کو چھوڑ کر شوال کی دوسری تاریخ سے لے کر مہینہ کے آخر تک الگ الگ کرکے  اور اکٹھے دونوں طرح رکھے جاسکتے ہیں۔ لہذا ان روزوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔  البتہ اگر کوئی روزہ نہ رکھے تو اسے طعن و تشنیع کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے؛ کیوں کہ یہ مستحب روزہ ہے، جسے رکھنے پر ثواب ہے اور نہ رکھنے پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔

واضح رہے کہ فقہاءِ احناف خصوصاً امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور صاحبین رحمہما اللہ سے بھی شوال کے روزوں کا استحباب منقول و ثابت ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی طرف بدعت وکراہت کی نسبت درست نہیں ہے۔ فقہاءِ احناف نے شوال کے روزے عید کے دن سے شروع کرنے کی ممانعت فرمائی ہے،  یعنی عیدالفطر کے دن روزہ رکھنا شرعاً منع ہے، لہٰذا اس دن سے اگر کسی نے شوال کے نفلی روزے شروع کیے تو وہ بدعت اور ممنوع ہوگا، علی الاطلاق شوال کے روزوں کو بدعت ومکروہ کہنا درست نہیں ہے۔ اور امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک بھی رمضان المبارک اور شوال کے روزوں میں فاصلے کے بغیر مسلسل روزے رکھنا مکروہ ہے، یعنی درمیان میں کچھ فاصلہ کیا جائے؛ تاکہ واضح طور پر محسوس ہوکہ رمضان المبارک مکمل ہوکر اب شوال کے روزے جدا طور پر رکھے جارہے ہیں، باقی کسی امامِ مجتہد سے نفسِ شوال کے روزوں کی کراہت یا بدعت ہونا منقول نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 435):
"(وندب تفريق صوم الست من شوال) ولايكره التتابع على المختار خلافاً للثاني حاوي. والإتباع المكروه أن يصوم الفطر وخمسة بعده فلو أفطر الفطر لم يكره بل يستحب ويسن ابن كمال" .

(قوله: على المختار) قال صاحب الهداية في كتابه التجنيس: إن صوم الستة بعد الفطر متتابعةً منهم من كرهه، والمختار أنه لا بأس به؛ لأن الكراهة إنما كانت؛ لأنه لايؤمن من أن يعد ذلك من رمضان فيكون تشبهاً بالنصارى والآن زال ذلك المعنى اهـ ومثله في كتاب النوازل لأبي الليث، والواقعات للحسام الشهيد، والمحيط البرهاني، والذخيرة. وفي الغاية عن الحسن بن زياد: أنه كان لايرى بصومها بأساً ويقول: كفى بيوم الفطر مفرقاً بينهن وبين رمضان اهـ وفيها أيضاً عامة المتأخرين لم يروا به بأساً.
واختلفوا هل الأفضل التفريق أو التتابع اهـ. وفي الحقائق: صومها متصلاً بيوم الفطر يكره عند مالك، وعندنا لايكره وإن اختلف مشايخنا في الأفضل.
وعن أبي يوسف أنه كرهه متتابعاً والمختار لا بأس به اهـ وفي الوافي والكافي والمصفى يكره عند مالك، وعندنا لايكره، وتمام ذلك في رسالة تحرير الأقوال في صوم الست من شوال للعلامة قاسم، وقد رد فيها على ما في منظومة التباني وشرحها من عزوه الكراهة مطلقاً إلى أبي حنيفة وأنه الأصح بأنه على غير رواية الأصول وأنه صحح ما لم يسبقه أحد إلى تصحيحه وأنه صحح الضعيف وعمد إلى تعطيل ما فيه الثواب الجزيل بدعوى كاذبة بلا دليل، ثم ساق كثيراً من نصوص كتب المذهب، فراجعها، فافهم. (قوله: والإتباع المكروه إلخ) العبارة لصاحب البدائع، وهذا تأويل لما روي عن أبي يوسف على خلاف ما فهمه صاحب الحقائق كما في رسالة العلامة قاسم، لكن ما مر عن الحسن بن زياد يشير إلى أن المكروه عند أبي يوسف تتابعها وإن فصل بيوم الفطر فهو مؤيد لما فهمه في الحقائق، تأمل.

مذکورہ مسئلہ کی مزید تفصیل کے لیے فتاوی بینات 3/87  پر تفصیلی فتویٰ بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

3۔۔ جامعہ کے ضابطے کے مطابق عموماً شخصی سوالات کا جواب نہیں دیا جاتا۔ فقط واللہ اعلم

نوٹ: بعض اہلِ علم کے تفردات (انفرادی  آراء) ہوتے ہیں، عام شخص کے لیے یہی حکم ہے کہ وہ ان اہلِ علم کا احترام ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ان تفردات کے بجائے جمہور اہلِ علم کی رائے کو اختیار کرے اور اس کے مطابق عمل کرے، عامی شخص کے لیے سلامتی کی راہ یہی ہے۔ نیز اگر کسی اہلِ علم کا تفرد ہو، یا وہ کسی دوسرے صاحبِ علم پر تنقید کرے تو عام مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ تمام اہلِ حق علماء کا احترام کرتے ہوئےخود کو ان معاملات سے دور رکھیں۔ 


فتوی نمبر : 144008202060

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں