بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کا اپنی دکان کے بارے میں ” یہ دکان دونوں  بیٹوں  کی ہے“ کہنا / وارث کے لیے وصیت کا حکم


سوال

ہم دو بھائی اور چار بہن ہیں،  والدہ کے نام ایک دکان ہے جو والد نے خرید ی تھی، والد صاحب اکثر سب کے سامنے یہی جملہ کہتے تھے کہ” یہ دکان دونوں  بیٹوں  کی ہے“ (ہم دو بھائی کے استعمال میں ہے ) اور والدہ اپنے زیورات کے بارے اکثر یہ کہتی کہ  میرے بعد یہ میری بیٹوں کے ہیں، والدہ کے انتقال کے بعد چاروں بہنوں نے آپس میں خودہی تقسیم کرلیے، ہم دو بھائی کو معلوم بھی نہیں  ہوا، جب ہم نے دکان والی بات کی تو دو بڑی بہن تو خاموش ہیں، دو چھو ٹی بہن کہتی ہیں کہ  ہمیں  بھی دکان میں سے حصہ دو، اور جب ہم بھائی زیورات والی بات کرتے ہیں تو بہنیں کہتی ہیں کہ یہ تو والدہ نے ہمیں دیے تھے،  ہمارے والد حیات ہیں وہ بیٹیوں کی طرف داری کرتے ہیں، زیور ات کے بارے میں اور دکان والی بات پر خاموش رہتے ہیں۔

جواب

 کسی چیز  کا  ہبہ  (گفٹ)  مکمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہبہ (گفٹ) کرنے والا "موہوبہ"  چیز  (یعنی جو چیز گفٹ کی جارہی ہے)  کو موہوب لہ (جس کو ہبہ کررہا ہے) کے نام کرنے کے ساتھ ساتھ  اس کا مکمل  قبضہ اور تصرف بھی  اسے دے دے، اور ہبہ کے وقت موہوبہ چیز سے اپنا تصرف مکمل طور پر ختم کردے، ورنہ مکمل قبضہ دیے بغیر محض زبانی یا تحریری  ہبہ (گفٹ) کرنا شرعاً  کافی نہیں ہوتا اور وہ موہوبہ  چیز بدستور مالک کی ملکیت میں برقرار رہتی ہے، نیز کسی قابلِ تقسیم چیز کا دو یا دو سے زیادہ افراد کو مشترک طور پر گفٹ کرنے کی صورت میں یہ بھی ضروری ہے وہ ان سب کو الگ الگ تقسیم کرکے دی جائے، ہاں اگر وہ چیز قابل تقسیم نہیں ہے، یعنی اس کو تقسیم کیا جائے تو اس سے انتفاع حاصل نہ کیا جاسکتا ہو تو ایسی صورت میں مشترکہ ہبہ درست ہوجائے گا بشرطیکہ حصص کی تعیین کرلی گئی ہو۔

مذکورہ تفصیل کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ :

والد صاحب نے اپنی ملکیتی دکان کے بارے  اپنے دونوں بیٹوں کے لیے  اکثر یہ جملہ کہا کہ  ” یہ دکان دونوں  بیٹوں  کی ہے“تو اگر وہ دکان قابلِ تقسیم ہے، تو یہ ہبہ درست نہیں ہوگا، اگرچہ وہ بیٹوں کے قبضہ اور تصرف میں ہو، ہاں اگر والد صاحب اپنی زندگی میں دونوں کو تقسیم کرکے اپنے اپنے حصے کا مالک بنادیں تو ہبہ درست ہوجائے گا۔  اور اگر قابلِ تقسیم نہیں ہے، اور والد صاحب نے بیٹوں کو یہ کہہ کر گفٹ کی اور بیٹوں کے قبضہ اور تصرف میں بھی دے دی، اور ہر ایک کاحصہ بھی متعین کیا ا وراس کے بعد اپنا تصرف اس سے بالکل ختم کردیا تو یہ ہبہ (گفٹ) درست ہوجائے گا، اور یہ دکان بیٹوں کی ملکیت شمار ہوگی۔

نیز جس صورت  میں دکان کا ہبہ مکمل نہیں ہوگا، اس صورت میں دکان بدستور والد ہی کی ملکیت میں برقرار رہے گی،  اور وہ اپنی زندگی میں اس میں کسی بھی قسم کا جائز تصرف کا حق رکھتے ہیں، زندگی میں ان کی ملکیتی اشیاء میں اولاد کا ملکیتی حق نہیں ہے اور نہ کسی کے لیے مطالبہ کرنا درست ہے۔

باقی زیورات کے بارے آپ کی والدہ مرحومہ  کا اپنی بیٹیوں کے لیے  یہ کہنا ”میرے بعد یہ مری بیٹوں کے ہیں“ یہ وصیت کے الفاظ ہیں، اور شرعاً وارث کے لیے وصیت دوسرے ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوتی ہے، اگر ورثاء اجازت دے دیں تو نافذ ہوجائے گی، ورنہ وصیت کالعدم شمار ہوگی، اور یہ زیورات والدہ مرحومہ کا ترکہ ہوں گے جس میں ان کے تمام شرعی ورثاء کا اپنے حصص کے تناسب سے حق ہوگا۔

الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1/ 248):
"ولو قال الرجل: جميع مالي، أو جميع ما أملكه لفلان، فهذا إقرار بالهبة لايجوز إلا مقبوضة".

فتاویٰ عالمگیری میں ہے (4/ 375):
"ولو قال: جعلت لك هذه الدار، أو هذه الدار لك فاقبضها، فهو هبة، هكذا في فتاوى قاضي خان.

قوله: " هذه الدار لك " أو " هذه الأرض لك " هبة لا إقرار، كذا في القنية .... ولو قال: جميع مالي أو كل شيء أملكه لفلان فهو هبة، كذا في الاختيار شرح المختار.

ولو قال: جميع ما أملكه لفلان، يكون هذا القول هبة؛ حتى لاتجوز بدون القبض".

وفیہ ایضا (4/ 376):
"قال الأب: جميع ما هو حقي وملكي فهو ملك لولدي هذا الصغير، فهذا كرامة لا تمليك، بخلاف ما لو عينه، فقال: حانوتي الذي أملكه أو داري لابني الصغير فهو هبة، وتتم بكونها في يد الأب، كذا في القنية. رجل قال: جعلت هذا لولدي فلان، كانت هبةً، ولو قال: هذا الشيء لولدي الصغير فلان جاز وتتم من غير قبول، كذا في التتارخانية".

وفیہ ایضاً

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية". (4/378،  الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز، ط: رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

"وتصح في محوز مفرغ عن أملاك الواهب وحقوقه ومشاع لايقسم ولايبقى منتفعاً به بعد القسمة من جنس الانتفاع الذي كان قبل القسمة كالبيت الصغير والحمام الصغير ولاتصح في مشاع يقسم ويبقى منتفعاً به قبل القسمة وبعدها، هكذا في الكافي". (4/374، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لايجوز، ط: سعید)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  میں ہے:

"(قوله: فإن قسمه وسلمه صح) أي لو وهب مشاعاً يقسم ثم قسمه وسلمه صح وملكه؛ لأن التمام بالقبض وعنده لا شيوع فأفاد أنه لو قبضه مشاعاً لايملكه فلاينفذ تصرفه فيه؛ لأنها هبة فاسدة مآلاً وهي مضمونة بالقبض ولاتفيد الملك للموهوب له وهو المختار".  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200105

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں