بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد مرحوم کا قرضہ معاف کروانا


سوال

 میرے والد کے ذمے کچھ قرض تھا، والد نے مجھے وہ قرض ادا کرنے کی وصیت کی، مگر ساتھ میں یہ بھی کہا کہ یہ قرض جس شخص کا دینا ہے اس سے پلاٹ کی مد میں پیسے لیے تھے، مگر اس جگہ پلاٹ نہ مل سکا اور پیسے پلاٹ کے لین دین میں ضائع ہوگئے، اب نقصان پورا کرنے کے لیے دوسری جگہ آفر کی ہے، مگر لینے والا رضا مند نہ ہوا، ہم دونوں دوست ہیں اس پر ہماری دل شکنی بھی ہوئی اور میں نے حرم پاک میں بیٹھ کر اللّٰہ تعالیٰ کے ڈر سے معاملہ حل کرنے کی کوشش کی ہے، مگر میرا دوست پلاٹ کے بجائے پیسوں کا ہی مطالبہ کرتا رہا، اب میں اس کو یہ کہہ کر چلا گیا کہ میرے پاس پیسے ہوئے تو دوں گا، نہ ہوئے تو اللّٰہ عزوجل کے ذمے، بعد میں حالات ایسے ہوئے کے پیسوں کی مکمل ادائیگی نہ ہو سکی، کل رقم 2 لاکھ  82  ہزار تھی  جس میں سے 1لاکھ 82 ہزار ادا کر دیے گئے ہیں، 1 لاکھ باقی ہے،  والد کا 60 ہزار کسی جگہ سے قرض آنا تھا اور وہ مل گیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ میں ضرورت مند بھی ہوں اور مقروض بھی ہوں،  ہم 6 بہن بھائی اور والدہ ہیں، اگر میں سب بہن بھائیوں سے اس 60 ہزار کی اجازت اس طرح لوں کہ یہ 60 ہزار میں والد کے 1 لاکھ قرض کی ادائیگی کے لیے لے جا رہا ہوں اور جا کر اس آدمی سے اپنے حالات بتا کر قرض معاف کرا دوں اور رقم اپنے اور والدہ کی ضروریات پر خرچ کروں تو کیا یہ جائز ہوگا؟

جواب

آپ کے والدِ مرحوم کے ترکے میں سے ان کی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد ان کے ذمے جو ایک لاکھ روپے قرض ہے، سب سے پہلے اس کی ادائیگی ضروری ہے، البتہ اگر قرض خواہ  خوشی سے پورا قرضہ یا کچھ قرضہ معاف کردے تو جائز ہے۔ البتہ ایسی صورت میں معاف شدہ قرضہ اور باقی ترکہ کو شرعی طریقے کے مطابق تقسیم کیا جائے گا  اور اگر معاف نہ کرے تو  اس قرضہ کا ترکہ میں سے  ادا کرنا ضروری ہوگا۔

لہٰذا اگر مذکورہ قرض خواہ قرض کا کچھ حصہ معاف کرے تو بقیہ ادا کرنا ضروری ہوگا، اور اگر مکمل قرض معاف کردے تو یہ رقم (60 ہزار روپے) تمام ورثہ میں ان کے شرعی حصص کے مطابق تقسیم کی جائے گی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200720

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں