بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کی اجازت کے بغیر مدرسہ جانا


سوال

اگر کوئی اپنے والدین کے بغیر مدرسے چلے جاۓ اور والدین اس کو اجازت نہیں دیتے۔ اور اس کے گھر کے حالت بھی ٹھیک ہیں۔  کیا اب والدین کے بغیر اس کو مدرسے چلے جانا چاہیے یا نہیں؟

جواب

دینی علوم حاصل کرنے کے لیے بہتر یہ ہے کہ والدین کی رضامندی سے مدرسہ جائے، لیکن اگر والدین خدمت کے محتاج نہ ہوں یا کوئی اور خدمت کرنے والا موجود ہو تو ایسی صورت میں ان کی اجازت کے بغیر بھی مدرسہ جانا اور دینی علوم سیکھنا جائز ہے،  تاہم ایسے آدمی کو چاہیے کہ اللہ کی بارگاہ میں والدین کا دل نرم ہونے اور اجازت دینے کا جذبہ ڈال دینے کی دعا کرتا رہے، اور والدین کو بھی اپنے نیک مقصد کے لیے قائل کرنے کی کوشش کرتا رہے۔

مفتی محمد عبدالسلام چاٹ گامی صاحب دامت برکاتہم اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

’’دین کے ضروری اَحکام کا علم حاصل کرنا مثلاً: ایمان، نماز، زکاۃ، روزہ، حج، حقوق العباد اور حقوق اللہ وغیرہ جاننا ضروری ہے، اور فرض اَحکام کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھی والدین کی اجازت لینا تو مناسب ہے، لیکن اگر والدین اجازت نہ دیں تو ان کی بات ماننا ضروری نہیں، ان کی اجازت کے بغیر بھی ضروری اَحکام کے سیکھنے کے لیے جاسکتے ہیں۔

البتہ اعلیٰ تعلیم کے لیے ان کی اجازت کے بغیر سفر نہیں کرسکتا، اور ان کو خدمت کی ضرورت ہو تو اعلیٰ تعلیم کے لیے مستقل وقت بھی نہیں لگا سکتا۔ فقط واللہ اعلم

کتبہ: محمد عبدالسلام‘‘

مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں سائل کو اپنے مسئلے کی نوعیت دیکھ لینی چاہیے، اگر مذکورہ طالب علم ضروری دینی علم حاصل کرچکا ہے اور اپنے شہر سے دور کہیں اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے جانا چاہتاہے تو اسے والدین کی اجازت کے بغیر نہیں جانا چاہیے، بصورتِ دیگر اجازت ہوگی۔

الفتاوى الهندية (5 / 366):
"رجل خرج في طلب العلم بغير إذن والديه فلا بأس به، ولم يكن هذا عقوقاً".

وفیه:

"ولو خرج إلی التعلم إن کان قدر علی التعلم و حفظ العیال فالجمع بینهما أفضل، ولو حصل مقدار مالابدمنه مال إلی القیام بأمر العیال". (5 / 366) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200405

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں