بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والدین کی اجازت کے بغیر چھپ کرنکاح کرنا


سوال

میری دو  بہنیں ہیں، ( ایک بڑی اور ایک چھوٹی بہن )دونوں غیر شادی شدہ ہیں، امی اور ابوبھی ہیں، مجھے ایک لڑکی پسند آئی،  میں نے اپنی امی سے اس کا ذکر کیا،  میری امی اور دونوں بہنیں اس کے گھر رشتہ لے کر گئیں، ان کے حالات کچھ اچھے نہیں  یعنی غریب اور پرانا سا گھر ہے،  اور مالی حالات بھی کچھ اچھے نہیں، میری امی اور بہنوں نے صاف صاف منع کردیا کہ وہ فیملی ہمارے حساب کی نہیں، اس پر میں خاموش ہوگیا،  میں ایک میڈیسن کمپنی میں کام کرتا ہوں اور وہ بینک میں،  ہم دونوں کا آپس میں رابطہ رہا اور ابھی بھی ہے، ہم دونوں ملتے بھی رہے ہیں، اس لڑکی  کی عمر 25 سال اور میری عمر 32 ہے،  ہم نے سوچا کہ کیوں نہ  ہم نکاح کریں،   کیوں کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور اپنے اس نکاح کو چھپا کر رکھیں گے  جب تک فیملی راضی نہیں ہوتی، آپ میری راہ نمائی کر یں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے ؟

جواب

شریف اور مہذب گھرانے کا دستور ہے کہ لڑکی اور لڑکے  کے والدین نکاح کے تمام معاملات سنبھالتے ہیں، جب کہ دوسری جانب شریعت نے والدین کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ بالغ لڑکی  اور لڑکے سے نکاح کی اجازت لیں، جب تک دونوں اجازت نہ دیں تو  نکاح منعقد نہیں ہوگا۔

شریعت نے لڑکے اور لڑکی کو اپنی رائے کے استعمال کا حق دیا ہے،  لیکن اس میں خاندان والوں کی عزت کا پاس رکھنابھی ضروری ہے،  بہر حال یہ حرکت ناپسندیدہ ہے کہ لڑکا اور لڑکی گھر والوں کو لاعلمی میں رکھ کر نکاح کرلیں۔

اگر اعلانیہ نکاح کرنے کے بجائے آپ دونوں گواہوں  کی موجودگی میں گھر والوں سے  چھپ کر نکاح کی  مجلس منعقد کریں تو نکاح درست ہو جائے گا، البتہ گھر والوں کی رضامندی کے بغیر شادی کرنا اچھا نہیں۔ لہذا  اگر آپ یہیں شادی کرنا چاہتے ہیں تو پہلے  اپنے گھر والوں  کواس رشتے پر   راضی کریں، پھر شادی کریں، اور اگر وہ کسی طرح بھی تیار نہ ہوں تو  خفیہ نکاح نہ کریں۔  جب تک اس لڑکی سے نکاح نہ ہوجائے اس وقت تک آپ اس سے تعلقات منقطع رکھیں، اور ابھی تک  جو  کچھ ہوا ہے اس  پر دونوں صدق دل سے توبہ واستغفار کریں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"( فنفذ نكاح حرة مكلفة لا ) رضا ( ولي ) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا ( وله ) أي للولي (إذا كان عصبةً) ولو غير محرم كابن عم في الأصح، خانية. وخرج ذوو الأرحام والأم وللقاضي (الاعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي ويتجدد بتجدد النكاح ( ما لم ) يسكت حتى ( تلد منه)". ( الدر المختار مع رد المحتار، كتاب النكاح ، باب الولي ۳/۵۵ و ۵٦ ط: سعيد)

"يستحب للمرأة تفويض أمرها إلى وليها كي لاتنسب إلى الوقاحة، بحر. وللخروج من خلاف الشافعي في البكر، وهذه في الحقيقة ولاية وكالة ( أيضاً) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201814

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں