بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ، 5 بیٹیاں، ایک بھائی اور 3 بہنوں میں تقسیم وراثت


سوال

1: اگر ایک شخص کی پانچ بیٹیاں ہیں، بیٹا نہیں ہے،  ماں ہے،  ایک بھائی ہے اور تین بہنیں ہیں، تو اس کی وراثت کی تقسیم کی کیا صورت ہوگی؟

2 :اس کے علاوہ اگر وہ شخص اپنی زندگی میں اپنی ملکیت اپنی بیوی اور بیٹیوں کے نام کر دے تو پھر اس صورت میں اس کی تقسیمِ وراثت کس طرح کی جائے گی ؟

جواب

1: میت کے ترکہ میں سے تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے اور قرضوں کی ادائیگی کے بعد اگر جائز وصیت کی ہو تو بقیہ ترکہ کے ایک تہائی میں اسے نافذ کرنے کے بعد بقیہ ترکہ میں سے میت کی والدہ کو 16.66%، میت کی ہر بیٹی کو 10%، میت کے بھائی کو 13.33% اور میت کی ہر بہن کو 6.66% ملےگا۔

نوٹ : یہ تقسیم اس صورت میں ہے جب کہ میت کے انتقال کے وقت اس کی بیوہ نہ ہو۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 772):
"(وللأم) ثلاثة أحوال (السدس مع أحدهما أو مع اثنين من الأخوة أو) من (الأخوات) فصاعدا من أي جهة كانا ولو مختلطين".

2 : میت نے مرض الموت سے پہلے جس چیز  پر سے اپنا قبضہ اور تصرف ہٹا کر اپنی بیوی اور بیٹیوں کے قبضہ اور تصرف میں دے دیا ہو تو وہ مال اس کی بیوی اور بیٹیوں کا  ہوگیا تھا، اسے وراثت میں تقسیم نہیں کیا جائے گا۔  اور اگر مرض الموت میں بیوی اور بیٹیوں کو دیا لیکن اپنا قبضہ اور تصرف نہیں ہٹایا، صرف زبانی ہبہ کیا، یا صرف کاغذات میں نام کردیا تو ایسی صورت میں بیوی اور بیٹیاں اس کی مالک نہیں بنیں، ایسی صورت میں اگر ورثہ وہی ہیں جو اوپر مذکور ہیں تو  (اوپر) بتائے گئے تناسب سے اسے تقسیم کیا جائے گا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200950

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں