بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والدہ کی میراث میں اولاد کا حصہ


سوال

 میرے نانا 18سال پہلے فوت ہوئے اور میری والدہ 3سال پہلے. ہم ایک بھائی  اور چار بہنیں ہیں. میری نانی نے اپنی جائیداد اب تقسیم کی ہے،   جس میں میری والدہ کا حصہ بھی آیا ہے،  علماءِ  کرام قرآن وسنت کی روشنی میں کیا فرماتے ہیں کہ والدہ کے بعد ان کی اس میراث جو تقریباً  7 لاکھ کے برابر ہے اس کی وراثت شریعت کے مطابق کیسے تقسیم ہوگی ؟ مجھے سب نے بولا کہ والدہ کا وارث صرف بیٹا ہوتا ہے پر دل کو تسلی نہیں ہو رہی،  کہیں گناہ گار نہ ہو جاؤں !

جواب

والدہ  کی میراث میں جس طرح بیٹے کا حصہ ہوتا ہے اسی طرح بیٹیوں کا بھی حصہ ہوتا ہے، اگر آپ کے والد حیات نہیں ہیں تو  والدہ کی میراث 6 حصوں میں تقسیم کرکے 2 حصے بیٹے کو اور ایک ایک حصہ ہر بیٹی کو ملے گا، یعنی 700000 روپے میں سے 233333.33 روپے بیٹے کو اور  116,666.66 روپےہر  بیٹی کو ملیں گے ۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201054

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں