بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وارث کا اپنے حصہ سے دست بردار ہونے کے بعد دوبارہ مطالبہ کرنا


سوال

والدکے ساتھ تعاون کی وجہ سےچار بہنوں کی شادی.  ماں باپ کا حج،  مکان میں دوکانوں کی تعمیر . 14 مرلہ کے مکا ن میں،  3 مرلہ کورڈ تھا جسے میں نے 14 مرلہ کورڈ کیا، جس پر والد صاحب نے زندگی میں مجھ سے 40 ہزار لے کر 4بہنوں کو دس  دس ہزار دے دیے، اور کہہ دیا، اب مکان سے کچھ نہیں ملے گا. دس سال پہلے میں نے مزید دس دس لاکھ  4بہنوں کو یعنی چالیس لاکھ دیے، انہوں نے لکھ کر دیا اور انگوٹھا بھی لگا دیا، اب مزید مکان سے کچھ نہیں لیں گی. سب بھائی کا ہے، میں اکیلا بھائی ہوں، والد والدہ فوت ہو گئے،  بہنوں نے مکان کے تمام اختیار مجھے دے دیے، بیچوں اپنے نام کراؤں.

اب وہ کہتی ہیں کہ اس وقت ہماری ضروت تھی . اب ہمیں پوری طرح تقسیم کر کے حصہ دو . اس وقت ان کا حصہ مالیت کے حساب سے کچھ کم تھا، مگر وہ راضی تھیں. میں تھوڑا بہت مزید بھی دینے کو تیار ہوں، مگر وہ مکان بیچنے پر بضد ہیں، میرے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

میراث اور ترکہ میں جائیداد  کی تقسیم سے پہلے کسی وارث کا اپنے شرعی حصہ سے بلا عوض دست بردار ہوجانا شرعاً معتبر نہیں ہے، البتہ ترکہ تقسیم ہوجائےتو پھر ہر ایک وارث اپنے حصے پر قبضہ کرنے  کے بعد اپنا حصہ کسی  کو دینا چاہے  یا کسی کے حق میں دست بردار ہوجائے تو یہ شرعاً جائز اور  معتبر ہے۔ اسی طرح کوئی وارث ترکہ میں سے کوئی چیز لے کر (خواہ وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو)  صلح کرلے اور ترکہ میں سے اپنے باقی حصہ سے دست بردار ہوجائے تو یہ بھی درست ہے، اسے اصطلاح میں " تخارج" کہتے ہیں۔ان دونوں صورتوں میں پھر ایسے شخص کا اس ترکہ میں حق باقی نہ رہے گا۔

لہذا بہنوں نےاپنے  حصہ  کی کل یا کچھ رقم  وصول کر لی تھی اور اس کے بعد وہ اپنے حصے سے دست بردار ہو گئیں تھیں اور  ان سے یہ معاہدہ ہوا تھا کہ وہ اب اپنے حصے کا مطالبہ نہیں کریں  گی تو اب اس معاہدہ کی رو سے بہنوں کو مزید حصہ نہیں ملے گا، تاہم اگر بھائی اپنی خوشی سے دل جوئی کے لیے بہنوں  کو کچھ رقم مزید  دے دے تو شرعاً کوئی قباحت نہیں۔

" تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار" میں ہے:

" الإرث جبري لَا يسْقط بالإسقاط". (ج: 7/ص:505 / کتاب الدعوی، ط :سعید)

"الأشباہ والنظائر" لابن نجیم  میں ہے: 

"لَوْ قَالَ الْوَارِثُ: تَرَكْتُ حَقِّي لَمْ يَبْطُلْ حَقُّهُ؛ إذْ الْمِلْكُ لَايَبْطُلُ بِالتَّرْك". (ص:309- ما یقبل الإسقاط من الحقوق وما لایقبله، ط:قدیمی) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200721

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں