ایک آدمی نے اپنے لیے زمین لی جس کی قیمت 17 لاکھ پاکستانی روپیہ بنتی ہے اور اس آدمی کا لوگوں پر کاروبار کے لین دین میں 17 لاکھ پاکستانی روپیہ قرضہ ہےتو اس شحض پر اس زمین کی مقروض رقم اور ان کی جو لوگوں پر ہے کیا اس پر زکاۃ آئے گی ؟
اگر اس شخص نے یہ زمین آگے بیچنے کے لیے یا اس پر تعمیر کرکے آگے بیچنے کے لیے لی ہے تو اس پر زکاۃ ہے، خواہ اس کی رقم ادا کی ہو یا نہ کی ہو۔ البتہ جتنا قرضہ ایک سال میں ادا کرنا ہو وہ مجموعی مالیت سے منہا ہوگا.
باقی اس کا جو قرضہ لوگوں پر ہے اس بھی پر زکاۃ لازم ہے۔ البتہ یہ اختیار ہے کہ قرض کی رقم جب تک وصول نہ ہو زکاۃ ادا نہ کرے، لیکن وصول ہونے کے بعد جتنے سالوں کی زکاۃ ادا نہیں کی، اس کی ادائیگی لازم ہوگی۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"واعلم أن الدیون عندالإمام ثلاثة: قوي ومتوسط وضعیف، فتجب زکاتها إذا تم نصاباً وحا ل الحول لکن لافوراً بل عند قبض أربعین درهماًمن الدین القوي کقرض وبدل مال تجارة ...[شامی،کتاب الزكاة،باب زکاة الغنم، ج:۲۔ص:۵۰۳،ط:سعید]فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143908200708
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن