بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نیک لوگوں پر آزمائشوں کی حکمت


سوال

میرا ایک دوست کہتا ہے کہ عام انسان پر حالات آتے ہیں، آزمائش تو نیک لوگوں پر آتی ہے، عام آدمی پر آزمائش نہیں آتی، جب کہ اللہ پاک فرماتاہے: ہم تم کو تمہارے مال اور اولاد سے آزمائیں گے۔ 

کیا میرا دوست صحیح بات کررہاہے یا نہیں؟

جواب

لفظی اعتبار سے تو آزمائش بھی ایک قسم کا حال ہے۔ درحقیقت مشکل اور پریشانی نیک اور بد  دونوں قسم کے لوگوں پر آتی ہے،  نیک لوگوں پر وہ ایک قسم کی آزمائش ہوتی ہے جس کے ذریعے اللہ تعالی ان کےدرجات کو بڑھا دیتے ہیں۔

اور برے لوگوں پر پریشانی ان کے گناہوں کے سبب آتی ہے، پھر اگر وہ مسلمان ہو تو ان مصیبتوں کی وجہ سے اللہ تعالی اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ لہذا اگر پریشانیاں آجائیں تو ان پر صبر کیا جائے تو ہر ایک کے  لیے اس میں بہتری اور اجر ہے، البتہ اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ عافیت مانگتے رہنا چاہیے۔

شرعی طور پر ایسا فرق ملحوظ نہیں ہے کہ نیک لوگوں پر آنے والی پریشانیوں کو ’’آزمائش‘‘  کہا جائے اور برے لوگوں کے لیے انہیں ’’حالات‘‘  کہا جائے۔ بلکہ برے لوگوں کے لیے بھی نصوص میں آزمائش کا ذکر ہے، اور برے لوگ اگر کفار ہوں تو ان کے لیے ان حالات کو عذاب سے بھی تعبیر کیا گیا ہے، الغرض بد لوگوں کے لیے انہیں صرف حالات سے تعبیر نہیں کیا گیا۔ البتہ اگر کوئی اپنے ذہن میں معہود معنیٰ کے اعتبار سے ایسا فرق کرکے اپنی اصطلاح بنالیتاہے اور اس کے برعکس کہنے کو بھی غلط نہیں کہتا تو اصطلاح اپنی بنالینےمیں حرج نہیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200514

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں