ولیمہ میں آجکل رواج ہے کہ پیسے لیتے ہیں اور لکھ لیتے ہیں کہ کس نے کتنے پیسے دیے؟ بعد میں ان لوگوں کے ہاں اگر شادی ہوگی تو یہ بھی ان کو اتنے پیسے دیں گے۔ اگر کوئی پیسے نہیں دیتا جس کا نام پیسے دینے والوں میں نہیں ہوتا ان سے ناراض بھی ہوتے ہیں۔۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اگر ناجائز ہے تو کوئی دلیل؟
ولیمے کے موقع پر مذکورہ طریقہ کا لین دین "نیوتہ" کہلاتا ہے، جو شادی بیاہ کے موقع کی ایک قبیح رسم اور شرعی اعتبار سے ناجائز ہے، قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے: وما آتیتیم من ربو لیربو فی اموال الناس فلایربو عنداللہ۔ (روم : 39) یعنی جو مال اس نیت سے دیا جائے کہ اس کے بدلے میں زیادہ ملے گا تو اللہ کے ہاں اس کی بڑھوتری نہیں ہوتی۔ مفسرین نے نیوتہ کے لین دین کو بھی اس آیت کا مصداق ٹھہراتے ہوئے ناجائز قرار دیا ہے، البتہ کسی قسم کے بدلے کی نیت کے بغیر محض خوشی کے موقع کی مناسبت سے رقم ہدیہ کردینا جائز ہے، اور جس برادری میں نیوتہ کی رسم ہے وہاں اگر شادی یا ولیمہ کے موقع پر کچھ دیا گیا ہے تو اس کی حیثیت قرض کی ہے اور قرض پراضافہ لینا بوجہ سود کے ناجائز ہے۔ واللہ اعلم۔
فتوی نمبر : 143801200036
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن