بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نہانے اور قضائے حاجت کی جگہ کے درمیان فاصل


سوال

جب غسل خانہ اور قضائے حاجت کی جگہ  ایک ساتھ ہو تو  کیا اس میں کوئی فاصل ضروری ہے؟

جواب

بہتر یہ ہے کہ قضائے حاجت کی جگہ اور غسل خانہ جدا جدا ہوں، لیکن چوں کہ موجودہ زمانہ میں جگہ کی تنگی ہوسکتی ہے ، لہذا قضائے حاجت کی نشست اور غسل خانہ ایک ہی چار دیواری میں بنانے کی گنجائش ہے، تاہم یک جا بنانے کی صورت میں بھی بہتر یہ ہے کہ دونوں کے درمیان کوئی فاصل ہو، لیکن اگر کسی بھی ذریعہ سے فاصل ممکن نہ ہو تو بغیر فاصل کے دونوں کو  یک جا کرنے کی اجازت ہے۔رد المحتار (1/ 344):

’’(وأن يبول قائماً أو مضطجعاً أو مجرداً من ثوبه بلا عذر أو) يبول (في موضع يتوضأ) هو (أو يغتسل فيه)؛ لحديث: «لا يبولن أحدكم في مستحمه؛ فإن عامة الوسواس منه»‘‘.

و في الرد: ’’(قوله: لحديث إلخ) لفظه كما في البرهان عن أبي داود: «لا يبولن أحدكم في مستحمه ثم يغتسل أو يتوضأ فيه؛ فإن عامة الوسواس منه». والمعنى موضعه الذي يغتسل فيه بالحميم، وهو في الأصل الماء الحار، ثم قيل للاغتسال بأي مكان استحمام؛ وإنما نهي عن ذلك إذا لم يكن له مسلك يذهب فيه البول أو كان المكان صلباً فيوهم المغتسل أنه أصابه منه شيء؛ فيحصل به الوسواس، كما في نهاية ابن الأثير. اهـ. مدني‘‘.

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 54):

’’قوله: " ويكره في محل التوضؤ"؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: "لا يبولن أحدكم في مستحمه ثم يغتسل فيه أو يتوضأ؛ فإن عامة الوسواس منه". قال ابن ملك: لأن ذلك الموضع يصير نجساً؛ فيقع في قلبه وسوسة بأنه هل أصابه منه رشاش أم لا اهـ حتى لو كان بحيث لا يعود منه رشاش أو كان فيه منفذ بحيث لا يثبت فيه شيء من البول لم يكره البول فيه؛ إذ لا يجره إلى الوسوسة حينئذٍ؛ لأمنه من عود الرشاش إليه في الأول؛ ولطهر أرضه في الثاني بأدنى ماء طهور يمر عليها، كذا في شرح المشكاة‘‘.فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143904200017

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں