بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے وقت لڑکی کا خاموش ہونا


سوال

میرا جب نکاح ہوا تھا تو لڑکی کے والد لڑکی سے اجازت لے کر آئے تھے، جس پر لڑکی نے خاموشی اختیار کر لی، اور والد صاحب نے اسی کو اجازت سمجھ کر نکاح کروا دیا۔ شادی کے بعد مجھے پتا چلا کہ میرا جس لڑکی سے نکاح ہوا ہے وہ اجازت دیتے وقت خوش نہیں تھی، نہ ہی دل  مطمئن تھا، بلکہ وہ غصّہ کی سی کیفیت میں تھی کہ میرے والد نے بغیر ٹھیک سے سوچے سمجھے اور لڑکے کو ٹھیک سے دیکھے بغیر ہی نکاح میں جلد بازی اختیار کی ہے۔  شادی کے بعد الحمدللہ ہم دونوں بہت خوش ہیں۔ آپ راہ نمائی فرمائیں کہ اگر خوشی کے بغیر جب کہ  دل بھی اجازت نہ دے رہا ہو، لیکن لڑکی کی خاموشی کافی ہے؟ اور اب ہمیں نکاح کی تجدید  کی ضرورت تو نہیں؟

جواب

حدیثِ  مبارکہ  میں لڑکی سے پوچھنے پر اس لڑکی کی خاموشی کو  اس کی رضامندی  کہا گیا ہے، لہذا اس کی خاموشی اس کی جانب سے رضامندی شمار ہوگی۔ نیز  جب اس نے عملی طور پر بھی یہ رشتہ قبول کرلیا تو اس نکاح کی صحت میں کوئی شک نہیں ہے، لہٰذا اس حوالے سے تردد کا شکار نہ ہوں خصوصاً جب کہ وہ اس نکاح سے خوش بھی ہے۔

العناية شرح الهداية (3/ 267):
" إذَا اسْتَأْمَرَهَا قَبْلَ الْعَقْدِ فَسَكَتَتْ فَهُوَ رِضًا مِنْهَا بِالنَّصِّ". (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 121)

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (20/ 129):
" وَقيل: إِذا ضحِكت كالمستهزئة لم یکن رضَا بِخِلَاف مَا إِذا بَكت؛ فَإِنَّهُ دَلِيل السخط والكراهية".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 121):
"والصحيح المختار للفتوى أنها إن بكت بلا صوت فهو إذن؛ لأنه حزن على مقاومة أهلها، وإن كان بصوت فليس بإذن؛ لأنه دليل السخط والكراهة غالباً، لكن في المعراج: البكاء وإن كان دليل السخط لكنه ليس برد حتى لو رضيت بعده ينفذ العقد، ولو قالت: لاأرضى ثم رضيت بعده لايصح النكاح اهـ.
وبهذا تبين أن قول الوقاية: والبكاء بلا صوت إذن ومعه رد، ليس بصحيح، إلا أن يؤول: أن معناه ومعه ليس بإذن؛ لأنه دليل .السخط وفي فتح القدير: والمعول عليه اعتبار قرائن الأحوال في البكاء والضحك، فإن تعارضت أو أشكل احتيط اهـ.
وقدم المصنف مسألة الاستئذان قبل العقد؛ لأنه السنة قال في المحيط: والسنة أن يستأمر البكر وليها قبل النكاح بأن يقول: إن فلاناً يخطبك أو يذكرك فسكتت وإن زوجها بغير استئمار فقد أخطأ السنة وتوقف على رضاها. اهـ.
وهو محمل النهي في حديث مسلم: «لا تنكح الأيم حتى تستأمر، ولاتنكح البكر حتى تستأذن، قالوا: يا رسول الله، وكيف إذنها؟ قال: أن تسكت». فهو لبيان السنة للاتفاق على أنها لو صرحت بالرضا بعد العقد نطقاً فإنه يجوز".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200623

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں