بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح میں کفو اور غیرِ کفو کی تفصیل


سوال

 شادی میں کفو کن چیزوں میں ہونا ضروری ہے؟

جواب

’’کفو‘‘ کا معنی ہے: ہم سر، ہم پلہ، برابر۔  نکاح کے باب میں "کفو"  کا مطلب یہ ہے کہ  لڑکا دین، دیانت، مال ونسب، پیشہ اور تعلیم میں لڑ کی کے ہم پلہ (یا اس سے بڑھ کر) ہو ، اس سے کم نہ ہو،  اور کفاءت میں مرد کی جانب کا اعتبار ہے، یعنی لڑکے کا لڑکی کے ہم پلہ اور برابر ہونا ضروری ہے، لڑکی کا لڑکے کے برابر ہونا ضروری نہیں ہے۔

لہذا اگرلڑکااورلڑکی نسب، مال، دِین داری، شرافت اورپیشے میں ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوں تویہ دونوں ایک دوسرے کے ’’کفو‘‘   قرار پائیں گے، ان کاباہمی رضامندی کے ساتھ  نکاح درست ہے،   اور اگر لڑکا اور لڑکی کے درمیان مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق برابری نہ ہو تو  یہ  ’’غیر کفو‘‘  میں نکاح ہوگا۔  پھر  اگر ولی(والد یا دادا وغیرہ) اور عورت اس رشتے پر راضی ہوں خواہ وہ رشتہ ہم سر نہ ہو تو بھی نکاح جائز ہے۔ اور اگر عورت اولیاء کی اجازت و رضامندی کے بغیر غیر کفو میں نکاح کرلے تو اولاد پیدا ہونے سے پہلے تک اولیاء کو عدالت کے ذریعہ یہ نکاح فسخ کرانے کا حق ہوتاہے۔

مذکورہ امور (نسب، پیشہ اور مال وغیرہ) میں برابری کی کیا حد ہے؟ اور کفاءت کہاں معتبر ہے؟  اس کی تفصیل کے لیے کتبِ فقہ و فتاویٰ کا مطالعہ کرلیا جائے۔

         فتاوی شامی میں ہے:

"ونظم العلامة الحموي ما تعتبر فيه الكفاءة فقال:

إن الكفاءة في النكاح تكون في ... ست لها بيت بديع قد ضبط

نسب وإسلام كذلك حرفة ... حرية وديانة مال فقط". (3/ 86، کتاب النکاح، باب الکفاءۃ، ط: سعید)

فتح القدیرمیں ہے:

"لأن انتظام المصالح بين المتكافئين عادةً؛ لأن الشريفة تأبى أن تكون مستفرشةً للخسيس، فلا بد من اعتبارها، بخلاف جانبها؛ لأن الزوج مستفرش فلاتغيظه دناءة الفراش".(3/ 293، کتاب النکاح، باب الاولیاء والاکفاء، فصل فی الکفاءۃ، ط: دار الفکر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخراً، وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخراً أيضاً، حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك، ولكن للأولياء حق الاعتراض ... وفي البزازية: ذكر برهان الأئمة: أن الفتوى في جواز النكاح بكراً كانت أو ثيباً على قول الإمام الأعظم، وهذا إذا كان لها ولي، فإن لم يكن صح النكاح اتفاقاً، كذا في النهر الفائق. ولايكون التفريق بذلك إلا عند القاضي أما بدون فسخ القاضي فلا ينفسخ النكاح بينهما". (1/ 292، کتاب النکاح، الباب الخامس فی الاکفاء فی النکاح، ط: رشیدیہ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200561

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں