بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح فضولی


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ:

زید کو نکاحِ فضولی کی ضرورت تھی مگر وہ دل کی تسلی کے لیے ایک دفعہ خود نکاح کرنا چاہتا تھا۔اس نکاح کے دوران نکاح خواں نےصرف زید سے ایجاب وقبول کیا، مگر لڑکی کے وکیل کی  موجودگی کے باوجود اس سے ایجاب وغیرہ نہ کیا۔اس وقت ایک مفتی صاحب نے بتایا کہ یہ نکاح نہیں ہوا ؛ کیوں کہ نکاح دونوں کی طرف سے ایجاب و قبول کا نام ہے۔ اس کے بعد زید نے ایک عالمِ دین (جو کہ اصل میں لڑکی کا وکیل تھا) کو پورا واقعہ بیان کیا کہ مجھے نکاحِ فضولی کی ضرورت ہے ؛اس لیے میں خود نکاح نہیں کرسکتا اور نہ کسی کو وکیل بنا سکتا ہوں۔اب اس نے اپنی طرف سے زید کا نکاح کیا اور زید نے اجازت بالوطی دی تھی مگر غلطی یہ ہوئی کہ اس (لڑکی کے وکیل)نے دوبارہ لڑکی سے نہیں پوچھا، کیوں کہ اس کے مطابق اس نے مجھے پہلے نکاح کے لیے وکیل مقرر کیا تھا جو کہ نہیں ہوا اور میرے پاس وہ اختیار باقی ہے،اور ادھر لڑکی بھی جو کہ زید سے نکاح کے لیے بے تاب تھی کو جب پتا چلا تو اس نے یہ کہا کہ یہ کیسا کیا مجھ سے نہیں پوچھا ۔اب لڑکی کا یہ کہنا نکاح سے انکار کے لیے نہیں تھا، بلکہ وہ چاہتی تھی کہ نکاح کسی صورت ہو جائے۔بعد میں اس وکیل نے میرے کہنے پر دوبارہ لڑکی سے پوچھا کہ میں نے آپ کا نکاح کیا ہے، کیا آپ اپنے اختیار پر قائم ہیں؟ اس نے ہاں میں جواب دیا۔

(1) تو پہلا والا   نکاح اگر ہواہو تو اس دوسرے نکاح کا کیا حکم ہوگا؟

(2)لڑکی کا اعتراض جو کہ اصل میں نکاح کے صحیح ہونے کے لیے تھا کا کیا حکم ہے؟

(3)زید نے اجازت بالوطی دی تو کیا اب مہر وغیرہ کے پیسے خود دے سکتا ہے؟

جواب

پہلا نکاح منعقد نہیں ہوا اور دوسرانکاح لڑکا اور لڑکی دونوں کی اجازت پر موقوف تھا جب دونوں کی طرف سے اجازتِ فعلی پائی گئی تو دوسرا نکاح منعقد ہوگیا،زید اب مہر کے پیسے خود دے سکتا ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200632

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں