بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کے دوران یا نماز سے باہر دعا میں چھینک آنا


سوال

دعا مانگتے ہوئے چھینک آنا سعادت ہے،  یہ حدیث ہے،  میرا سوال یہ ہے کہ نماز کے دوران چھینک آنا حدیث کی روشنی میں کیسا ہے؟

جواب

سائل نے سوال میں دو چیزوں کے بارے میں پوچھا ہے:

1- دعا میں چھینک کا آنا۔    2-  نماز میں چھینک کے بارے میں حدیث۔

پہلی بات:دعا میں چھینک کا آنا۔

چھینک کے بارے میں بعض روایات میں یہ وارد ہوا ہے کہ دعا میں چھینک آنا سعادت ہے، اس روایت کو  مختلف کتابوں میں  نقل کیا گیا ہے، امام طبرانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں ذکر فرمایا ہے:

"حدثنا أحمد بن عبد الوهاب بن نجدة وأبو زيد الحوطيان قالا: ثنا علي بن عياش الحمصي ح وحدثنا أحمد بن المعلى الدمشقي قال: ثنا هشام بن عمار قالا: ثنامعاوية بن يحيى الأطرابلسي عن معاوية بن سعيد التجيبي عن يزيد بن أبي حبيب قال: حدثني أبو الخيرمرثد بن عبد الله اليزني عن أبي رهم السمعي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن من أسرق السراق من يسرق لسان الأمير، وإن من أعظم الخطايا من اقتطع مال امرئ مسلم بغير حق، وإن من الحسنات عيادة المريض، وإن من تمام عيادته أن تضع يدك عليه وتسأله كيف هو؟ وإن من أفضل الشفاعات أن تشفع بين اثنين في نكاح حتى تجمع بينهما، وإن من لبسة الأنبياء القميص قبل السراويل، وإن مما يستجاب به عند الدعاء العطاس". (المعجم الکبیر للطبراني: ۱۶/۳۳۲)
اللألي المصنوعة  میں ہے:

"قال البهيقي: هذا إسناد فيه ضعف، واللّه أعلم". (اللألي المصنوعة: ۱/۳۶۸)

یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے،لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ  اللہ تعالیٰ کو چھینک پسند ہے اور جمائی کا آنا ناپسند ہے، جیسا کہ مختلف روایات سے ثابت ہے۔

دوسری بات: نماز میں چھینک کے بارے میں حدیث۔

بعض روایات سے چھینک کا ناپسندیدہ ہونا معلوم ہوتاہے، اور بظاہر  اس حدیث اور سابقہ روایت میں تعارض معلوم ہورہا ہے،  لیکن علماء نے اس  ظاہری تعارض کو بھی ایک حدیث کے الفاظ سے ہی دور کردیا ہے،  وہ اس طور پر کہ  جس حدیث میں چھینک کی فضیلت آئی ہے اس سے مراد نماز سے باہر ہے اور جس میں ناپسندیدگی کا ذکر ہے اس سے مراد نماز کے اندر ہے،  ملاحظہ فرمائیں، امام ترمذی رحمہ اللہ نے نماز کے اندر چھینک آنے کے بارے میں فرمایا: 

"حدثنا على بن حجر أخبرنا شريك عن أبى اليقظان عن عدى بن ثابت عن أبيه عن جده رفعه قال: «العطاس والنعاس والتثاؤب في الصلاة والحيض والقيء والرعاف من الشيطان". (سنن الترمذي، باب ما جاء أن العطاس في الصلاة من الشیطان: ۵/۸۳،ط:مکتبہ مصطفی البابی حلب)

اس حدیث میں چھینک کو شیطان کی طرف سے قرار دیا گیا ہے، حال آں کہ خود امام ترمذی رحمہ اللہ نے چھینک کو اللہ کے ہاں محبوب قرار دیا ہے، ملاحظہ فرمائیں:

"حدثنا الحسن بن علي الخلال قال: حدثنا يزيد بن هارون قال: أخبرنا ابن أبي ذئب، عن سعيد بن أبي سعيد المقبري، عن أبيه، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله يحب العطاس ويكره التثاؤب، فإذا عطس أحدكم فقال: الحمد لله فحق على كل من سمعه أن يقول: يرحمك الله، وأما التثاؤب، فإذا تثاءب أحدكم فليرده ما استطاع ولايقولن: هاه هاه، فإنما ذلك من الشيطان يضحك منه ". هذا حديث صحيح". (سنن الترمذي، باب ماجاء أن الله یحب العطاس ویکره التثاؤب :۵/۸۳، ط: مکتہ مصطفی البابی حلب)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو چھینک پسند ہے اور جمائی ناپسند ہے، اسی ظاہری تعارض کو دور کرنے کے لیے علامہ مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"لايعارض قوله هنا: "العطاس من الله" قوله في حديث عدي بن ثابت: "العطاس في الصلاة من الشيطان"؛ لأن هذا الحديث مطلق، وحديث جد عدي مقيد بحالة الصلاة، وقديتسبب الشيطان في حصول العطاس للمصلي ليستثقل به عنه". (فیض القدیر للمناوی:۴/۵۰۰،ط:دارالکتب العلمیہ )

یعنی  یہ دونوں حدیثیں باہم متعارض نہیں ہے؛ کیوں کہ جن میں محبوب ہونے کا تذکرہ ہے وہ نماز کے باہر ہے، اور جہاں شیطان کا عمل قرار دیا گیا ہے وہ نماز کے اندر ہے، لہذا ان روایات میں تعارض نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200044

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں