بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز / کھانے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا


سوال

 نمازِ مکتوبات کے بعد ہمارے امام ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں اور مقتدی سب آمین بولتے رہتے ہیں، کیا یہ دعا جائز ہے؟ جب کسی گھر میں دعوت ہوتی ہے اور لوگ جمع ہوتے ہیں تو ایک آدمی ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے اور باقی لوگ آمین بولتے ہیں،  کیا یہ صورت دعا کی جائز ہے؟ 

جواب

نماز  کے بعد امام کا بآوازِ بلند دعا کرنااور مقتدیوں کا آمین کہنا جائز ہے۔

وفي فتح الباري لابن حجرالعسقلاني:

"(قوله: باب التأمين يعني قول: آمين عقب الدعاء) ذكر فيه حديث أبي هريرة: إذا امن القاريء فأمنوا. وقد تقدم شرحه في كتاب الصلاة، والمراد بالقاريء هنا الإمام إذا قرأ في الصلاة، ويحتمل أن يكون المراد بالقاريء أعم من ذلك، وورد في التأمين مطلقًا أحاديث، منها حديث عائشة مرفوعًا: ما حسدتكم اليهود على شيء ما حسدتكم على السلام والتأمين. رواه ابن ماجه، وصححه ابن خزيمة، وأخرجه بن ماجه أيضًا من حديث ابن عباس بلفظ: ما حسدتكم على آمين؛ فأكثروا من قول: آمين. وأخرج الحاكم عن حبيب بن مسلمة الفهري: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لايجتمع ملأ فيدعو بعضهم، ويؤمن بعضهم إلا أجابهم الله تعالى ... الخ" (كتاب الدعوات، باب التامين، ج:۱۱، ص:۲۰۰، ط:دار المعرفة)

باقی کھانا کھانے کے بعد حضورِ  پاک ﷺ سے دعا  پڑھنا تو ثابت ہے،  لیکن  ہاتھ اٹھانا ثابت نہیں ہے۔ اسی طرح جن مواقع کی مناسبت سے مسنون دعائیں منقول ہیں، جیسے اذان کے بعد کی دعا، گھر میں داخل ہونا، مسجد میں داخل ہونا وغیرہ، جنہیں ’’اَذکارِ متواردہ‘‘ کہا جاتاہے، ان مواقع میں اصل اور سنت یہ ہے کہ ہاتھ نہ اُٹھائے جائیں۔

البتہ اگر کسی کسی موقع پر  کہیں دعوت ہو اور صاحبِ خانہ کی خواہش ہو کہ خیر و برکت کی دعا کرلی جائے تو  ایسی صورت میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کی اجازت ہے۔  تاہم کھانے کے بعد  ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنے کی عادت بنانا اور التزام کرنا یا ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے پر اصرار کرنا درست نہیں ہے۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

’’حضرت قیس بن سعد فرماتے ہیں: حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے گھر میں ہم سے ملاقات فرمائی اور آ  کر فرمایا: "السَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ" قیس کہتے ہیں: میرے والد سعد نے آہستہ سے جواب دیا۔ قیس کہتے ہیں: میں نے کہا: کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اجازت نہیں دے رہے ؟انہوں نے جواب دیا: صبر کرو ، میں چاہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر زیادہ بار سلام کریں۔ چناں چہ  حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ فرمایا: السلام علیکم،حضرت سعد نے پھر آہستہ سے جواب دیا۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیسری بارفرمایا:  السلام علیکم۔  پھر آپ علیہ الصلاۃ والسلام  واپس لوٹ گئے تو سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ   آپ کے پیچھے گئے اور عرض کیاکہ: یا رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آپ کے سلام کی آواز سن رہا تھا اور آہستہ سے جواب دے رہا تھا؛ تاکہ آپ ہم پر کثرت سے سلام فرمائیں۔

قیس کہتے ہیں: حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ساتھ واپس تشریف لائے اور سعد نے آپ کے لیے پانی وغیرہ کے بندوبست کا حکم دیا، آپ ﷺ نے غسل فرمایا، پھر سعد نے آپ کو زعفران اور ورس میں رنگی ہوئی ایک چادر دی جسے آپ ﷺ نے لپیٹ لیا، پھر آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور آپ کہہ رہے تھے کہ اے اللہ! اپنی رحمت اور برکت نازل فرماسعد بن عبادہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کی اولاد پر ۔

قیس کہتے ہیں:  پھر آپ نے کھانا کھایا،  جب آپ ﷺ نے واپسی کا ارادہ فرمایا تو حضرت سعد نے ایک گدھا سواری کے لیے  پیش کیا جس پر ایک چادر پڑی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر سوار ہوئے تو سعد نے کہا: اے قیس!  حضورِ  اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہوجا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: سواری پر ساتھ سوار ہو جاؤ، میں نے انکار کیا تو فرمایا کہ سوار ہو جاؤ، ورنہ واپس لوٹ جاؤ ،قیس کہتے ہیں کہ میں لوٹ گیا‘‘۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200186

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں