جھوٹ بولنے اور نماز چھوڑنے پر ایسی احادیث ہیں جن کے ظاہر سے جھوٹ بولنے اور نماز چھوڑنے والا کافر ہو جانا معلوم ہوا ہے، کیا اس طرح نکاح بھی دوبارہ کروانا پڑتا ہے؟ کیوں کہ کفر سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟
اگر کوئی آدمی نماز کو اس اعتقاد کے ساتھ ترک کرتا ہے کہ نماز فرض ہی نہیں تو ایسا آدمی کافر ہے اور توبہ کی صورت میں تجدیدِ نکاح بھی ضروری ہو گا اور اگر کوئی شخص ایسا اعتقاد تو نہیں رکھتا، بلکہ محض سستی کی وجہ سے نماز ترک کر دیتا ہے تو ایسا آدمی نماز چھوڑنے کی وجہ سے کافر نہ ہو گا، البتہ فاسق ہو گا، لہذا جب کافر نہ ہو گا تو نکاح بھی نہیں ٹوٹا؛ اس لیے اس کی تجدید کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔
اور جن احادیث میں نماز کے ترک پر کفر کا حکم لگایا گیا ہے، اس سے مراد بھی وہی صورت ہے جب اس اعتقاد سے چھوڑے کہ نماز چھوڑنا جائز ہے۔ اور اس صورت میں چھوڑنے والا بہرحال کافر ہو جاتا ہے یا اُن احادیث کا مطلب یہ ہے کہ اس کا یہ فعل کفار کے فعل سے مشابہ ہے۔
شرح النووي على مسلم (2/ 71):
’’وتأولوا قوله صلى الله عليه وسلم: ’’بين العبد وبين الكفر ترك الصلاة‘‘ على معنى أنه يستحق بترك الصلاة عقوبة الكافر وهي القتل، أو أنه محمول على المستحل، أو على أنه قد يؤول به إلى الكفر، أو أن فعله فعل الكفار، والله أعلم‘‘. فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144001200888
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن