بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں سستی کرنا


سوال

نماز میں سستی کرنے کا گناہ کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ایک شخص نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر دریافت کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ چیز کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا: نماز اپنے وقت میں ادا کرنا، اور جس نے نماز چھوڑ دی تو اس کا دین ہی نہیں اور نماز دین کا ستون ہے۔

الجامع لشعب الإيمانمیں ہے:

"عن عكرمة عن عمر جاء رجل فقال: يا رسول الله! أي شيء أحب عند الله ؟فقال: الصلاة لوقتها، ومن ترك الصلاة فلا دين له، والصلاة عماد الدين. قال أبو عبد الله: عكرمة لم يسمع من عمر، وأظنه أراد عن ابن عمر". ( الباب الحادي و العشرون من شعب الإيمان، و هو باب في الصلاة، رقم: ٢٥٥٠، ٤ / ٣٠٠)

سنن ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو چاہیے کہ وہ جماعت چھوڑنے سے باز آجائیں، ( اگر ایسا نہ کیا تو) اللہ (رب العزت) ان کے دلوں پر مُہر ثبت کردیں گے پھر وہ غافلین میں سے ہوجائیں گے۔

"ﻋﻦ اﻟﺤﻜﻢ ﺑﻦ ﻣﻴﻨﺎء ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﻲ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ، ﻭاﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺃﻧﻬﻤﺎ ﺳﻤﻌﺎ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻘﻮﻝ -ﻋﻠﻰ ﺃﻋﻮاﺩﻩ-: «ﻟﻴﻨﺘﻬﻴﻦ ﺃﻗﻮاﻡ ﻋﻦ ﻭﺩﻋﻬﻢ اﻟﺠﻤﺎﻋﺎﺕ، ﺃﻭ ﻟﻴﺨﺘﻤﻦ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻰ ﻗﻠﻮﺑﻬﻢ، ﺛﻢ ﻟﻴﻜﻮﻧﻦ ﻣﻦ اﻟﻐﺎﻓﻠﻴﻦ»". (ابن ماجه: ر ٧٩٤)

سنن الترمذی کی روایت میں ہے کہ ایمان اور کفر کے درمیان فرق نماز ترک کرنا ہے:

"حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "بَيْنَ الكُفْرِ وَالإِيمَانِ تَرْكُ الصَّلَاةِ". ( بَابُ مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الصَّلَاةِ، رقم: ٢٦١٨، ٥ / ١٣)

یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے نماز میں کوتاہی کرنے والوں کی سخت مذمت فرمائی ہے، سورہ مریم میں انبیاءِ کرام علیہم السلام کے ذکرِ خیر کے بعد فرمایا کہ ان کے بعد ایسے ناخلف آئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور خواہشِ نفس کے پیچھے ہولیے، چناں چہ وہ بہت جلد جہنم میں داخل ہوں گے۔ 

﴿ فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا ﴾ [مريم: 59]

ابن جریر روایت کرتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں نماز ضائع کرنے کا مطلب نمازوں کے مقررہ اوقات کا خیال نہ رکھنا ہے۔

"روى ابن جريرٍ عن عمر بن عبدالعزيز: "لم تكن إضاعتُهم تَرْكَها، ولكن أضاعوا الوقتَ". [تفسير الطبري ج16 ص98]

 دوسری جگہ بے نمازیوں کے  لیے سخت عذاب "ویل" مقرر فرمایا ہے، ارشاد ہے:

(فويل للمصلين الذين هم عن صلاتهم ساهون) [ الماعون:4-5]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ روزِ  قیامت بندے اعمال کے سلسلہ میں سب سے پہلے سوال نماز کے بارے میں کیا جائے گا، پس اگر نماز ٹھیک رہی تو وہ فلاح و کامیابی سے ہم کنار ہوگا، اور اگر نماز ( کا معاملہ) خراب ہوا تو  وہ خاسر و ناکام ہوگا، اور اگر اس کے  فرائض میں کوتاہی پائی جائے گی تو اللہ عز و جل کا ارشاد ہوگا کہ دیکھو اس بندے کے  نوافل ہیں،  تو اس کے ذریعہ سے اس کے فرائض کی کمی پوری کردو ، پھر بقیہ اعمال کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔

سنن ترمذی میں ہے:

" حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ الجَهْضَمِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا سَهْلُ [ص: ٢٧٠] بْنُ حَمَّادٍ قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَتَادَةُ، عَنْ الحَسَنِ، عَنْ حُرَيْثِ بْنِ قَبِيصَةَ، قَالَ: قَدِمْتُ المَدِينَةَ، فَقُلْتُ: اللَّهُمَّ يَسِّرْ لِي جَلِيسًا صَالِحًا، قَالَ فَجَلَسْتُ إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ، فَقُلْتُ: إِنِّي سَأَلْتُ اللَّهَ أَنْ يَرْزُقَنِي جَلِيسًا صَالِحًا، فَحَدِّثْنِي بِحَدِيثٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَنْفَعَنِي بِهِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ العَبْدُ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ صَلَاتُهُ، فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ، فَإِنْ انْتَقَصَ مِنْ فَرِيضَتِهِ شَيْءٌ، قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: انْظُرُوا هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ فَيُكَمَّلَ بِهَا مَا انْتَقَصَ مِنَ الفَرِيضَةِ، ثُمَّ يَكُونُ سَائِرُ عَمَلِهِ عَلَى ذَلِكَ". ( بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ العَبْدُ يَوْمَ القِيَامَةِ الصَّلَاةُ، رقم: ٤١٣، ٢ / ٢٦٩)  

مسند احمد  میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جو شخص نماز کی حفاظت کرے گا تو روز قیامت نماز اس کے لیے روشنی، دلیل اور نجات کا سامان ہوگی، اور جو نماز کی حفاظت نہیں کرے گا تو روزِ قیامت اس کے  لیے نہ روشنی ہوگی، نہ دلیل ہوگی اور  نہ نجات، اور  وہ روز قیامت قارون، فرعون،  ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔

"عن عبد الله بن عمرو عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه ذكر الصلاة يوماً، فقال له: من حافظ عليها كانت له نوراً وبرهاناً ونجاةً يوم القيامة، ومن لم يحافظ عليها لم يكن له نور ولا برهان ولا نجاة، وكان يوم القيامة مع قارون وفرعون وهامان وأبي بن خلف". ( ٢ / ٢٦٢) 

لہذا کسی بھی عاقل بالغ مسلمان کو نماز کی ادائیگی میں ہر گز کوتاہی نہیں برتنی چاہیے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201567

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں